نماز نماز کا بیان نماز چھوڑنے کا گناہ66right now right way
مسافر کی نماز71right way right now
مسافر کی نماز
مسافر شریعت میں اس شخص کو کہتے ہیں جو تین منزل کے سفر کا ارادہ کر کے گھر سے لگے
تین منزل سے مراد یہ ہے کہ کثرپیدل چلنے والا درمیانی رات سے وہاں تین دن میں انھی کے اگر کوئی شخص ریل گاڑی موٹر ، بس اسی تیز رفتارسواری کے ذریعہ جلدی پائی جائے تو وہ بھی شرعاً مسافر ہی ہو گا اور قصر نماز پڑھے گا۔
تین منزل کی مسافت کو اہل سنت و الجماعت ( دیو بند مسلک کے علماء نے اپنی تحریری کردہ کتب میں عوام کی سہولت کیلئے 48 میل یا 77 کلومیٹر کی مسافت کے برابر تحریر کیا ہے۔ جبکہ اہل سنت و الجماعت (بریلوی) مسلک کے علماء نے تین منزل کی مسافت کو 57 میل 3 فرلانگ بات 92 کلومیٹر کی مسافت کے برابر اپنی کتب میں تحریر کیا ہے۔
جب مسافر اپنے شہر بستی (یعنی آبادی) سے باہر نکل آئے اور مکانات کو پیچھے چھوڑو اس وقت قصر کرے۔ اسٹیشن اگر آبادی کے اندر ہے تو متعلقہ بستی کے حکم میں ہے اگر آبادی سے باہر ہے تو اس بستی کے حکم میں نہیں ہے۔
مسافر کیلئے تین منزل کی مسافت کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اس کی ایک ساتھ پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو۔ مسافر بستی یا شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد نماز قصر کرے گا ایسا شخص ظہر، عصر اور عشاء کی نمازوں میں چار رکعت فرض کی بجائے دو رکعت فرض پڑھے گا۔ چار رکعت کے فرض کی بجائے دور کعت فرض پڑھنے کو قصر کہتے ہیں۔ فجر اور مغرب کی نمازوں میں کوئی فرق نہیں کرے گا یعنی فجر کی دو ہی رکعتیں پڑھی جائیں گی اور مغرب اور وتر کی تین ہی رکھتیں ادا کرتا ہوں ؟
مسافر جب اپنی بستی کی آبادی سے باہر نکل جائے گا اس وقت سے قصر شروع کر دے گا اور جب تک سفر کرتا رہے اور کسی شہر اور قصبے یا گاؤں میں پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہ ہو اس وقت تک نماز قصر جاری رکھے گا اور جب کسی جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کر لی تو نیت کے کرتے ہی مسافر نہیں رہے گا بلکہ پوری نماز پڑھنی شروع کر دے گا۔
مسافر کیلئے با جماعت نماز پڑھنے کا طریقہ
اگر مسافر مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے گا تو چار رکعت ہی پڑھے گا ۔ قصر نہیں کرے گا۔ ی اگر نام متقی دونوں مسفر میں تو دونوں قصر کریں گے۔
لیکن اگر امام مسافر ہو اور اس کے ے مالی مقیم ہو تو امام کو چاہے کہ مقتدیوں کو پہلے بتادے کہ میں مسافر ہوں اور قصر پڑھوں گا مسافر امام دورکعت پر سلام پھیر دے گا لیکن مقتدی اگر مقیم ہیں تو سلام نہیں پھیریں گے۔
بلکہ کھڑے ہو کر خودہی اپنی بقیہ دور کھتیں پوری کریں گے مگر ان رکعتوں میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھیں بکہ بقدر سورة فاتحہ انداز خاموش کھڑے رہیں گے اور باقی معمول کے مطابق رکوع و سجود کر کے دور رکھتیں پوری کریں گے۔
مسافر کیلئے سنتیں اور نوافل پڑھنے کے مسائل
جلدی کی صورت میں سفر کے دوران سنتیں اور نوافل چھوڑے جا سکتے ہیں سفر میں سنتوں کا حکم یہ ہے کہ اگر جلدی ہو تو سنتوں کے چھوڑنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسی حالت میں ان کی تاکید نہیں رہتی ۔ اگر اطمینان کی حالت ہے اور زیادہ جلدی نہیں تو سنتوں کو ترک نہیں کرتا چاہیے خاص طور پر فجر کی سنتوں کو ترک نہ کیا جائے ۔ سنتوں میں قصر نہیں ہے۔
یعنی جہاں چار سنتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مسافر بھی وہاں چار سنتیں ہی پڑھے گا۔ سفر میں سنتیں اور نوافل بلا وجہ ترک نہ کئے جائیں۔ مسافر قصر نماز ھے جب تک وہ واپس اپنے گھر نہیں پہنچ جاتا یا کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زائد ٹھہرنے کی نیت نہیں کر لیتا۔
سفر کے دوران جو نمازیں قضا ہوں گی وہ اگر گھر پر ادا کی جائیں گی تو قصر ہی کرنا ہوں گی ۔ اسی طرح جو نماز گھر پر قضا ہو گی وہ اگر سفر میں ادا کی جائے گی تو پوری پڑھنی ہوگی۔
نماز کسوف : سورج اور چاند گرہن کی نماز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِّنَ النَّاسِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَأْتَأُمْ فَأُتُمْ، اَلُّوا»
سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ۔ یہ تو قدرت الہی کی دونشانیاں ہیں، جب انھیں گرہن ہوتے دیکھو تو نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ ۔ نبی اکرم سنی اسلام نے فرمایا: ” چاند اور سورج کا گرہن آثار قدرت ہیں۔ یہ کسی کے مرنے ، جینے یا کسی اور وجہ ) سے نمودار نہیں ہوتے بلکہ اللہ (اپنے) بندوں کو عبرت دلانے کے لیے ظاہر فرماتا ہے۔ اگر تم ایسے آثار دیکھو تو جلد از جلد یاد الہی ، دعا اور استغفار کی طرف رجوع کرو۔
سید نا عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو آپ نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا:
إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ»
نماز (تمھیں ) جمع کرنے والی ہے (یعنی نماز کے لیے جمع ہو جاؤ)۔
سورج اور چاند گرہن کی نماز کا طریقہ
سیدنا عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا۔ آپ نے باجماعت دو رکعتیں نماز پڑھی۔ آپ نے سورۂ بقرہ تلاوت کرنے کی مقدار کے قریب لمبا قیام کیا، پھر لمبا رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر پہلے قیام سے کم لمبا قیام کیا۔
پھر پہلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر قومہ کر کے دو سجدے کیے، پھر کھڑے ہو کر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا، پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر پچھلے قیام سے کم لمبا قیام کیا ، پھر پچھلے رکوع سے کم لمبا رکوع کیا، پھر دو سجدے کیے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرا، اتنی دیر میں سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر خطبہ دیا جس میں اللہ کی تعریف اور شنا کی اور فرمایا:
”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا پیدا ہونے سے انھیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھ تو اللہ کا ذکر کرو، اس سے دعا کرو تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ نیز فرمایا: دوران نماز میں میں نے جنت دیکھی۔
اگر میں اس میں سے ایک انگور کا خوشہ لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اس میں سے کھاتے اور میں نے دوزخ بھی دیکھی، اس سے بڑھ کر ہولناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور میں نے دیکھا۔ اور جہنم میں زیادہ تعداد عورتوں کی دیکھی کیونکہ وہ خاوندوں کی ناشکری کرتی ہیں۔
اگر تو ایک مدت تک ان کے ساتھ نیکی کرتا رہے، پھر ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرے تو کہتی ہیں کہ میں نے تجھ سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی ۔
سورج اور چاند کے گہنائے جانے پر آپ کا پیالہ گھبرا اٹھتے اور نماز پڑھتے ۔ سیدہ اسماء بیان کرتی ہیں کہ آپ کے زمانے میں (ایک دفعہ ) سورج گرہن لگا تو آپ گھبرا گئے اور گھبراہٹ میں اہل خانہ میں سے کسی کا کرتہ لے لیا، بعد میں چادر مبارک آپ کو پہنچائی گئی ۔ سیدہ اسماء یا بھی مسجد میں گئیں اور عورتوں کی صف میں کھڑی ہو گئیں۔ آپ نے اتنا طویل قیام کیا کہ ان کی نیت بیٹھنے کی ہوگئی لیکن انھوں نے ادھر ادھر اپنے سے کمزور عورتوں کو کھڑے دیکھا تو وہ بھی کھڑی رہیں۔
سیدنا جابر بھی کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ایک سخت گرمی کے دن سورج گرہن لگا، آپ نے صحابہ کرام کو ساتھ لے کر نماز پڑھی۔ آپ نے اتنا طویل قیام کیا کہ لوگ گرنے لگے۔
سیدہ اسماء کیا کہتی ہیں کہ ایک دفعہ سورج گرہن کی نماز میں آپ نے اتنا لمبا قیام کیا کہ مجھے عورتوں کی صف میں کھڑے کھڑے ضعف آ گیا۔ میں نے برابر میں اپنی مشک سے پانی لے کر سر پر ڈالنا شروع کیا پھر جلد ہی دوبارہ قیام نماز میں شامل ہوگئی ۔
غور فرمایا آپ نے کہ نبی اکرم سی ایم کس قدر انہماک اور اہتمام سے سورج گرہن کی نماز پڑھتے تھے۔ لیکن ہم نے کبھی اس نماز کی طرف توجہ نہیں کی ۔ رسول اللہ سلام کے پیچھے عورتیں بھی سورج گرہن کی نماز پڑھتی تھیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مسجد میں سورج گرہن کی نماز با جماعت کا اہتمام کریں اور ہماری عورتیں بھی ضرور مساجد میں جا کر نماز میں شامل ہوں ۔
نماز عیدین:
احکام و مسائل
سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :
الْغُسْلُ … يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَوْمَ عَرَفَةَ وَيَوْمَ النَّحْرِ وَيَوْمَ الْفِطْرِ»
جمعہ، عرفہ، قربانی اور عید الفطر کے دن غسل کرنا چاہیے ۔ سید نا عبداللہ بن عمر حیا عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے غسل کیا کرتے تھے۔ عید الفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا لازم ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدقۃ الفطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کرنا لازم ہے اور اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔
عید اگر جمعے کے دن ہو تو نماز عید پڑھنے کے بعد جمعہ پڑھ لیں یا ظہر، اختیار ہے۔
رسول اللہ سلام نے عیدین کی نماز ، اذان اور تکبیر کے بغیر پڑھی۔
سیدنا جابر بن عبداللہ نے فرمایا: نماز عید کے لیے اذان ہے نہ تکبیر ، پکارنا ہے نہ کوئی اور آواز۔
آپ نے عید گاہ میں سوائے عید کی دورکعتوں کے نہ پہلے نفل پڑھے نہ بعد میں ۔ نبی اکرم علی ایام عید الفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لیے نکلتے اور عیدالاضحی کے دن نماز پڑھ کر کھاتے۔
رسول اللہﷺ عید الفطر کے روز طاق کھجوریں کھا کر عید گاہ جایا کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک یا جب شہر جا کر عید کی نماز با جماعت ادا نہ کر سکتے تو اپنے غلاموں اور اہل و عیال کو جمع کرتے اور اپنےغلام عبداللہ بن ابو عتبہ الٹ کو شہر والوں کی نماز کیطرح نماز پڑھانے کا حکم دیتے۔
رسول اللہ صل الم کے پاس ایک مشتر سوار قافلہ آیا، اس نے گواہی دی کہ انھوں نے کل چاند دیکھا تھا تو آپ نے ہمیں روزہ افطار کرنے اور دوسرے دن عید کی نماز کے لیے نکلنے کا حکم دیا۔ (کیونکہ رؤیت ہلال کی خبر اتنی دیر میں پہنچی کہ نماز عید کا وقت نکل چکا تھا ۔ عید کے دن مسجد میں صحابہ نے جنگی کھیلوں کا مظاہرہ کیا۔
سیدنا عبد الله بن بسر عید الفطر یا عید الاضحیٰ کے روز نماز کے لیے گئے ۔ امام نے نماز میں تاخیر کر دی تو وہ فرمانے لگے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں ہم اس وقت نماز سے فارغ ہو چکے ہوتے تھے۔ راوی کہتا ہے کہ یہ چاشت کا وقت تھا۔ عید گاہ میں جس راستے سے جائیں، واپسی پر راستہ تبدیل کریں۔
عورتیں عید گاہ میں نہ جائیں
احادیث ، تعامل صحابہ اور تابعین کے فتاوی کی روشنی میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انھیں مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔
اسی منشاء نبوت کی وجہ سے صحابہ و تابعین نے عورتوں کو روک دیا تفصیل آنے والے دلائل میں … حضرت عبداللہ بن عمر کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں۔ عروہ بن زبیر بن عوام اپنے گھر کی کسی عورت کو عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔
حضرت قاسم بن ابو بکر صدیق عورتوں کے بارے میں شدید پابندی فرماتے تھے، انھیں عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز میں نہ جانے دیتے تھے۔ جلیل القدر تابعی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نماز کے لیے جانا مکروہ ہے۔
عید کی نماز کا طریقہ
پہلے اس طرح نیت کرے کہ نیت کی میں نے دو رکعت نماز عید الفطر کی (6) چھ تکبیروں کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے ( مقتدی اتنا اور کہے پیچھے اس امام کے ) منہ میرا طرف کعبہ شریف کے الله اکبر پھر کانوں تک اٹھائے اور اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثناء پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ چھوڑ دے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا ہا تھ چھوڑ دے پھر کانوں تک اٹھائے اور اللہ اکبر کہ کر ہاتھ باندھ لے خلاصہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد بھی ہاتھ باندھ لے
اور چوتھی تکبیر کے بعد بھی ہاتھ باندھ لے اور دوسری اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دے چوتھی تکبیر کے بعد امام آہستہ سے اَعُوذُ بِاللهِ وَبِسْمِ اللهِ پڑھ کر بلند آواز سے الْحَمْدُ اور کوئی سورۃ پڑھے اور رکوع وسجدہ سے فارغ ہو کر دوسری رکعت میں الحمد اور کوئی سورۃ پڑھے پھر تین بار کانوں تک ہاتھ اٹھا کر ہر بار الله اكبر کہتا ہوا ہا تھ چھوڑ دے اور چوتھی بار بلا ہا تھ اٹھائے تکبیر کہتا ہوا رکوع میں جائے
اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کرے۔ سلام پھیرنے کے بعد امام دو خطبے پڑھے پھر دعا مانگے پہلے خطبے کو شروع کرنے سے پہلے امام نو بار اور دوسرے کے پہلے سات بار اور منبر سے اترنے کے پہلے چودہ بار الله اکبر آہستہ سے کہے کہ یہ سنت ہے۔
عید الفطر کی نماز کو جاتے ہوئے راستہ میں آہستہ آواز سے تکبیر تشریق پڑھتے ہوئے جائیں اور عید الاضحی کی نماز کو جاتے ہوئے بآواز بلند
تکبیر تشریق کہتے جائیں ۔ تکبیر تشریق یہ ہے :-
اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ
وَاللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
عید الاضحیٰ کی نویں تاریخ کی نماز فجر سے لے کر تیرھویں تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند ایک بار تکبیر تشریق کہنا واجب ہے۔ امام بھول جائے تو مقتدی خود شروع کر دیں اس کا انتظار نہ کریں ۔
نماز استخارہ
جب کسی کو کوئی (جائز) امر در پیش ہو اور وہ اس میں متردد ہو کہ اسے کروں یا نہ کروں ، ما جب کسی کام کا ارادہ کرے تو اس موقع پر استخارہ کرنا سنت ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ دو رکعت نفل خشوع و خضوع اور حضور قلب سے پڑھے۔ رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ بڑے
اطمینان سے کرے۔ پھر فارغ ہو کر یہ دعا پڑھے :
اللهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَ اسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَاسْتَلْكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّکَ وَقَدْ تِرُكَ لَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَامُ الْغُيُوبِ، اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي في دِينِي وَمْرَ خَيْرٌ لِي في دِينِي وَمْرَ خَيْرٌ دُرْهُ لِي وَيَسِرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرِّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ اَمْرِى فَاصْرِفْهُ عَنِّى وَاصْرِفْنِي عَنْهُ وَاقْدُرُ الَخَيْرَ الْيْرُ ْضِنِي بِهِ
”اے اللہ ! یقینا میں اس کام میں تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور حصول خیر کے لیے تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے استطاعت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں کسی چیز پر قادر نہیں۔
تو ہر کام کا انجام جانتا ہے اور میں کچھ نہیں جانتا اورتو تمام غیوں کا جاننے والا ہے۔ الہی ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر ، پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما۔ اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس ( کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مہیا کر جہاں ( کہیں بھی ہو۔ پھر مجھے اسکے ساتھ راضی کر دے۔
نبی اکرم علی ایم نے فرمایا کہ هذا الامر کی جگہ اپنی حاجت کا نام لوں اگر عربی زبان میں اپنی حاجت کا نام لے سکو تو بہتر ہے ورنہ یہ دعا تھی الفاظ سے پڑھ کر بعد میں اپنی بولی میں اپنی حاجت کا اظہار کیجیے۔
جب آپ یہ مسنون استخارہ کر کے کوئی کام کریں گے تو اللہ تعالی اپنے فضل سے ضرور اس میں بہتری کی صورت پیدا کرے گا اور برے انجام سے بچائے گا۔ استخارہ رات یا دن کی جس گھڑی میں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں ، سوائے اوقات مکروہ کے۔