ماہِ صفر المظفر 69 right now right way
صفر المظفر
اسلامی دوسرے مہینہ کا نام صفر ہے یہ صفر بالکسر سے ماخوذ ہے جس کا معنی خالی ہے۔ چونکہ یہ مہینہ ماہ محرم کے بعد آتا ہے۔ محبوب خدا ﷺ کی بعثت سے قبل ماہ محرم میں جنگ حرام تھی مگر جب صفر کا مہینہ آتا تھا تو عرب جنگ کے لئے چلے جاتے اور گھروں کو خالی چھوڑ جاتے تھے۔ اس لئے اس کو صفر کہتے ہیں ۔
صفر کے معنی:
صفر عربی زبان کا لفظ ہے جس میں ص“ اور ”ف“ دونوں پر زبر ہے اس کے معنی وہی ہیں جو عام طور پر مشہور و معروف ہیں۔ اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں صفر کے متعلق اہلِ عرب کے مختلف اور عجیب و غریب تو ہمات تھے ، حضرات محدثین کرام رحمتہ اللہ نے ان سب کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے ، ذیل میں انکا مختصراً انتخاب پیش کیا جاتا ہے۔
صفر کے متعلق اہلِ عرب کا یہ گمان تھا کہ اس سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے اور بھوک کی حالت میں انسان کو ڈستا اور کاٹتا ہے۔ چنانچہ بھوک کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ اس کے ڈسنے سے ہوتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کے مہینے کو منحوس کہتے تھے اور اس ماہ میں شادی نہیں کرتے تھے ۔ اور کہتے تھے کہ اس ماہ میں آسمان سے بلائیں اترتی ہیں جو کہ ایک غلط اور فضول بات ہے۔ یہی حال آج کی عوام کا ہے جو صفر کے اس مبارک مہینے کو منحوس سمجھتے ہیں۔
صفر کا مہینہ بھی مبارک مہینہ ہے جس کو صفر المظفر کہتے ہیں یعنی برکتوں والا مہینہ۔ یہ مہینہ بھی ماہ صفر میں نحوست کا تصور دوسرے مہینوں کی طرح مبارک ہے۔ حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “ابن آدم زمانے کو برابھلا کہ کر مجھے تکلیف دیتا ہے حالانکہ زمانہ تو میں ہی ہوں نظام کا ئنات میرے ہی ہاتھ میں ہے”۔ ( بخاری شریف)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا اور نہ بدشگونی کی کوئی اصل ہے اور نہ الو میں نحوست ہے اور صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد نہیں ۔
صفر المظفر کے وظائف
روزانه ۱۲۰۰ سو مرتبہ يَا رَحْمَنُ يَا سَلَامُ سید نا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس نے یہ روزانہ صبح و شام سات سات مرتبہ پڑھا اللہ عزوجل اس کی تمام پریشانیوں میں کفایت کرے گا۔ حَسْبِيَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
( ترجمہ )
مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں میں نے اس پر بھروسا کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے۔
ہر بلاوں آفت اور مصیبت سے ) گولی ، خودکش بم دھماکے سے حفاظت ) کی دعاء
حضور نبی کریم کو جب کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعاء فرماتے تھے ۔ ہر نماز کے بعد تین مرتبہ پڑھیں
اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ
ترجمہ:
”اے اللہ عز وجل ہم تجھے دشمنوں کے مقابل کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں“
روزانه دو رکعت صلوۃ التوبه پڑھیں ۔تین روزےرکھیں
ماہ صفر کی پہلی رات کے نوافل ماہ صفر کا چاند دیکھ کر نماز مغرب اور نماز عشاء کے درمیان چار رکعت نفل دو دو کر کے پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھنی ہے پھر بعد از سلام کثرت سے اس درود پاک کو پڑھیں ۔ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِنِ النَّبِيِّ الْأُمِّي وَبَارِكْ وَسَلَّمُ
اللہ تعالٰی اس نماز اور اس درود پاک کے پڑھنے والے کے تمام گناہ معاف فرما کر مغفرت فرمائے گا۔
اول شب بعد نماز عشا ء چار رکعت نفل پڑھیں ۔ پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون پندرہ مرتبہ دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ اور تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ فلق پندرہ مرتبہ اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الناس پندرہ مرتبہ پڑھیں ۔ سلام کے بعد ایک سو مرتبہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاك نَسْتَعِينُ پڑھیں ۔ پھر ستر مرتبہ درود شریف پڑھیں ۔ ان نوافل کے پڑھنے والے کو اللہ تعالی تمام بلاؤں، آفتوں سے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کو بڑا ثواب عطا کرے گا۔
نقل آخری چہارشنبه ماہ صفر کے آخر کی بدھ کو جسے آخری چہار شنبہ کہتے ہیں وقت چاشت غسل کر کے دو رکعت نفل پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ پڑھیں پھر سلام کے بعد ستر مرتبہ درود شریف پڑھیں ۔ اللَّهُمَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدِنِ النَّبِي الْأُمِّيِ وَالِهِ وَ أَصْحَابِهِ وَ سَلَّم.
ماہِ صفر المظفر 69 right now right way
ماہ صفر کے متعلق احادیث
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور اکرم سے سنتا ہے کہ ماہ صفر میں بیماری نحوست اور بھوت وغیرہ کا نزول نہیں ہوتا ۔
نبی کریم نے ارشاد فرمایا” چھوت نحوست، بدشگونی اور شیطانی گرفت کے اثرات کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ (الحدیث) ارشاد نبوی کا منشا یہ ہے کہ ذاتی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ بلکہ الزمان کلمہ خیر زمان تو سارے کا سارا خیر ہے کہ مہینہ اور کوئی دن بحیثیت مہینہ اور دن قطعاً منحوس نہیں۔ متبرک اور منحوس تو انسان کے اپنے اعمال ہوتے ہیں اور انہی پر خیر و شر کا دارو مدار ہے ۔
شیخ سعدی فرماتے ہیں “
بارش تو اپنی جملہ خوبیوں سمیت ہی برستی ہے مگر باغ میں پھول اُگتے ہیں اور شور زمین میں کانٹے بہر حال وقت بحیثیت وقت سارا ہی خیر ہے کوئی گھڑی بھی منحوس نہیں محرم کی ہو یا صفر کی وغیرہ وغیرہ۔
حدیث قدسی ہے کہ : ارشاد باری تعالی ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کیونکہ زمانہ تو میں ہی ہوں ۔ (الحدیث) اس مختصر سے تجزیے کے بعد ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ ماہ صفر کسی طرح بھی منحوس یا غیر متبرک ( بے برکت ) نہیں بلکہ یہ مبارک اور محترم مہینہ ہے ۔
بعض جگہ لوگ ماہ صفر المظفر کے آخری بدھ کو ایک تہوار کے طور پر مناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ آخری بدھ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا۔ حضرت امام احمد رضا خان احکام شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ آخری چہار شنبہ (بدھ) کی اصل نہیں نہ اس دن صحت یابی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ثبوت ، بلکہ مرض اقدس جس میں وفات مبارک ہوئی اس کی ابتداء اسی
دن سے بتائی جاتی ہے۔
اسی طرح ماہ صفر المظفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے اور لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے
اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، یہ سب باتیں بے اصل ہیں شرعاً ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ
اس روز بلائیں نازل ہوتی ہیں، یہ سب باتیں خرافات ہیں۔
حدیث شریف میں رسول اکرم نے ارشاد فرمایا ” ” عددی نہیں یعنی مرض کا متعدی ( چھوت ) ہونا نہیں اور نہ بد
حالی ہے اور ہامہ ہے نہ صفر ۔ حدیث کی تشریح میں محدثین لکھتے ہیں کہ عدوی “ کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی اور بدفالی کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ شگون لیتے تھے
اس طرح کہ جب کسی کام کا ارادہ کرتے تو یا کسی جگہ جاتے تو پرندے یا ہرن کو چھوڑ دیتے اگر یہ دائیں طرف جاتا تو اسے مبارک سمجھتے اور نیکشگون لیتے اور اگر بائیں طرف جاتا تو اسے بدشگون سمجھتے حضور اکرم نے اس عقیدت کو باطل قرار دیا۔
ولا حامہ کے معنی سر کے ہیں اور یہاں مراد ایک جانور کا نام ہے، لوگوں کا یہ گمان تھا کہ یہ جانورمیت کی ہڈیوں
سے پیدا ہوتا اور اُڑتا ہے، اور ہمیشہ فریاد کرتا ہے کہ مجھے پانی دو۔ بعض ہامہ سے مراد الو لیتے ہیں اور اسے منحوس سمجھا جاتا ہے۔ حضور اکرم نے اس عقیدہ کو بھی غلط قرار دے دیا ، ولا صفر صفر نہیں ، اس میں بہت سے اقوال ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ صفر سے مراد یہی مہینہ ہے جو محرم کے بعد آتا ہے،
عوام اس کو منحوس اور بلاؤ کا مبینہ سمجھتے ہیں یہ اعتقاد بے اصل اور باطل ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ بعض دنوں بعض تاریخوں بعض جانوروں یا انسانوں میں نحوست سمجھتے تھے ، شریعت نے ان تمام عقائد کی تردید فرمادی اور واضح فرمادیا کہ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بداعمالیوں ، اور فسق و فجور میں ہے۔ اپنی گناہوں کی نحوست کو دوسری چیزوں کی طرف ڈالنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک کالے حبشی کو راستے میں شیشہ پڑا ملا حبشی نے اس سے پہلے کبھی اپنا چہرہ شیشے میں نہیں دیکھا تھا۔
حبشی نے شیشے میں جب اپنا چہرہ دیکھا تو بہت اپنا برا معلوم ہوا اس نے غصے میں آکر شیشے کو زمین پر پھینک مارا، اور کہا کہ تو اتنا بدصورت اور بدنما ہے اس لئے تجھے کسی نے یہاں پھینک دیا ہے۔ تو جس طرح اس حبشی نے اپنی بدصورتی کو شیشہ کی طرف منسوب کیا اسی طرح دنیا میں لوگ اپنی بد عملی کو دوسری چیزوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حقیقت میں عبادت مبارک چیز ہے اور گناہ منحوس چیز ہے۔
ماہ صفر کی دعا
يَا شَدِيدَ الْقُوَى وَ يَا شَدِيدَ الْمِحَالِ يَا عَزِيزُ يَا عَزِيزٌ يَا عَزِيزُ ذَلَّتْ بِعَظَمَتِكَ جَمِيعُ خَلْقِكَ فَاكْفِنِي شَرَّ خَلْقِكَ يَا مُحْسِنُ يَا مُجْمِلُ يَا مُنْعِمُ يَا مُفْضِلُ يَا لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سَبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ وَ صَلَّى اللهُ عَلى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ
ترجمہ: اے زبر دست قوتوں والے اے سخت گرفت والے اے غالب اسے غائب اے غالب تیری بڑائی کے آگے تیری ساری حقوق پست ہے ہیں اپنی مخلوق کے شر سے بچائے رکھا نے احسان والے ہے۔ تیکی والے اسے نحت والے اے افضل والے اسے کہ نہیں کوئی معبود سوائے تیرے تو پاک ہے بے شک میں ظالموں میں سے ہوں میں ہم نے اس کی دعا قبول کی اسے کم سے نجات دے دی اور اہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیتے ہیں اور خدا رحمت نازل کرے محمد اور ان کی آل پر جو پاک و پاکیزہ ہے۔