قرآن کے مطابق زندگی82right now right way
قرآن کے مطابق زندگی
قرآن مجید کے مطابق زندگی گزارنے سے ہر سانس عبادت بن جاۓ گی۔
خداوند تعالیٰ نے اپنی مخلوق انسان کے لئے تعلیم و تربیت کا خود انتظام کیا ہے ۔
تعلیم و تربیت کے لئے آسمانی کتب اور تربیت کے لئے اپنے رسول بھیجے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول کودو قسم کے علم دئیے ۔ ایک وحی کے ذریعے اور دوسرا علم لادونی ۔ اس لئے رسول اللہ مدینۃ العلم کہلاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر میں آپ کا خالق ہوں تو تم اپنی مرضی کیوں کرتے ہو ؟تم اپنی مرضی سے اپنا کلچر کیوں بناتے ہو ؟ تم اپنی مرضی سے اپنی تعلیمات کیوں دیتے ہو ؟لیکن اگر تم ہماری تعلیم یعنی قرآن مجید کے مطابق زندگی گزارو گے تو تمہاری ہر ہر سانس بھی عبادت بن جائے گی ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید نے ہمیں دنیا و آخرت دونوں کی تعلیم دی ہے کہ دنیا بھی مانگو تو اچھی مانگو اور آخرت بھی مانگو تو اچھی مانگو ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : تمہاری صرف نمازیں اور روزے ہی عبادت نہیں بلکہ اللہ کے امور میں غور و فکر کرنا بھی عبادت ہے ۔ اگر ہم اپنی زندگی میں غور وفکر شروع کر دیں تو ہماری زندگی میں انقلاب آجائے گا ۔
اس آیت مجیدہ کے نظریہ کو امام رضا علیہ السلا م نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :ہمارے ماننے والا وہ نہیں ہے جو دنیا کو دین کے لئے ترک کر دے یا دین کو دنیا کے لئے ترک کر دے ۔اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ دنیا و آخرت میں خسارہ اٹھانے والا ہوگا۔ یہاں سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ اگر ہم دنیاوی زندگی کو درست نہیں کریں گے تو دنیا و آخرت دونوں میں ذلیل ہونگے ۔
قرآن کے مطابق زندگی82right now right way
قرآن مجید کے مطابق زندگی گزارنے کا ضروری اور اہم حصہ یہ ہے کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں تک اس کا یعنی قرآن مجید کا پیغام پہنچائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جیسے ہی پہلی وحی نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے عوام تک پہنچانے کے عظیم کام کا احساس کر لیا۔ دوسری وہی قُم فَاَنذِر کا حکم لیے ہوئے آئی۔
پھر متعدد مقامات پر رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر یہ واضح کیا گیا کہ قرآن مجید کو پہنچانا ، اسے سنانا اور اس کی تشریح کرنا ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اولین فریضہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کا مشن ہے۔
اب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیروکار ہونے اور اللہ کی کتاب کے حامل ہونے کی حیثیت سے یہی مشن ہمارے سپرد ہے۔ ہمارے پاس قرآن مجید ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم اسے اپنے اور دوسروں تک پہنچائیں ۔ قرآن سننے کا مطلب ہے کہ اسے سنائیں۔ ہمیں اسے پوری انسانیت پر واضح کرنا چاہیے اور بتانا چاہیے اور چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے۔
ان اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمھیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انھیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا ۔ مگر انھوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اسے بیچ ڈالا ۔ کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ (آل عمران ۱۸۷:۳) اگر آپ کے قلب میں اور ہاتھ میں کوئی چراغ ہے تو اس کی روشنی پھیلنی چاہیے۔ اگر آپ کے اندر کوئی آگ لگی ہے تو اس کی تپش پھیلنی چاہیے۔ جو عارضی دنیاوی مقاصد کے لیے ایسا نہیں کرتے وہ در حقیقت اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔
قرآن کے مطابق زندگی82right now right way
جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیاوی فائدوں پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں وہ دراصل اپنا پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا ، نہ انھیں پاکیزہ ٹھہرائے گا۔
قرآن مجید کے مطالعے سے آپ کے دل میں ایمان پیدا ہونا چاہیے۔ اس ایمان کے مطابق آپ کی زندگی کو ڈھلنا چاہیے۔ یہ کوئی تدریجی مرحلہ وار عمل نہیں ہے جس میں آپ پہلے کئی برس قرآن مجید پڑھنے میں، پھر اسے سمجھنے میں، پھر ایمان مضبوط کرنے میں صرف کریں۔
اور پھر اس کے بعد اس پر عمل کریں۔ جب آپ کلام الہی سنتے ہیں یا تلاوت کرتے ہیں تو آپ کے اندر ایمان کی چنگاری روشن ہو جاتی ہے۔ جب اندر ایمان داخل ہو جاتا ہے، تو آپ کی زندگی بدلنی شروع ہو جاتی ہے۔ جو بات آپ کو یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطابق زندگی گزارنے کا سب سے زیادہ بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ ایک بڑا فیصلہ کریں۔ دوسرے جو کچھ بھی کر رہے ہوں ، معاشرے کے مطالبات کچھ بھی ہوں، آپ کے آس پاس کوئی بھی افکار غالب ہوں ، آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مکمل طور پر تبدیل کرنا ہوتا ہے۔
یہ فیصلہ عظیم قربانیاں چاہتا ہے۔ لیکن اگر آپ قرآن مجید کو خدا کا کلام تسلیم کر کے اس پر ایمان لا کر چھلانگ لگانے کو تیار نہ ہوں تو آپ جو وقت قرآن مجید کے ساتھ صرف کر رہے ہیں، اس کا کوئی اچھا نتیجہ سامنے نہیں آئے گا۔ پہلے قدم پر، پہلے ہی لمحے یہ بالکل واضح کر دیا گیا ہے کہ قرآن مجید صرف ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے
جو خدا کی مرضی کے خلاف زندگی گزارنے کے نقصانات، اور اس کی ناراضگی مول لینے سے بچنے کے لیے عمل کرنے کو تیار ہیں اور جو نتائج رکھتے ہیں، یہی متقی ہیں۔ (البقرہ ۱:۲-۵) قرآن مجید علم اور عمل کے درمیان اور ایمان اور عمل صالح کے درمیان کوئی دوری اور فاصلہ تسلیم نہیں کرتا ۔
دنیا کا سازو سامان اور زیب و زینت دراصل وسایل ہیں آخرت کی تیاری کے لیے اس زندگی کے دورانئے میں جو ہمیں دیے گئے ہیں۔اگر ہم بن دیکہے ہی اس رب سے جڑ جائیں، ذرا سی کوشش و جستجو کریں تو وہ تو لپک کر ہمیں اپنے سے چمٹا لیتا ہے اور اپنا راستہ دکھا دیتا ہے۔ بس ہم نے اپنے رویے میں غرور و تکبر کی بجائے عاجزی کا رویہ لانا ہو گا۔قران مجید کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہو گا۔
دراصل اس میں نہ تو اللہ ھی کا کوئی فائدہ ہے اور نہ اس کے پیغمبر کا۔ ہمارا رب جو رحمان اور رحیم ہے جو ہمارے ہر دکھ سکھ سے واقف ہے کیونکہ وہ ہمارا حقیقی خالق و مالک ہے۔تو پھر کیا وہی نہ جانے گا جس نے ہمیں پیدا کیا۔ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس نے ہماری ہدایت کے بے شمار سبب بناۓ۔
اگر ہم اس کے بتاے ہوئے دین پر چلیں جو کہ دین فطرت ہے۔تو ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کرنے والے بن جائیں گے ہماری دنیا سنور جاۓ گی اور آخرت بھی سنور جاۓ گی۔ یہی ہمارا مقصد حیات ہے اور ہم اس کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے۔۔ بے شک اللہ کے ہاں یہی اصل کامیابی ہے۔اللہ پاک ہمیں دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔امین الٰہی امین!
جمادی الاولٰی75right now right way