فضیلت نماز68right way right now
فضیلت نماز
سیدنا ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَفَّارَةٌ لِّمَا بَيْنَهُنَّ مَا لَمْ تُغْشَ الْكَبَائِرُ
پانچ نمازیں ، ان گناہوں کو جو ان نمازوں کے درمیان ہوئے ، مٹا دیتی ہیں اور (اسی طرح) ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، جب کہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا گیا ہو ۔
مثلاً : فجر کی نماز کے بعد جب ظہر پڑھیں گے تو دونوں نمازوں کے درمیانی عرصے میں جو گناہ، لغزشیں اور خطائیں ہو چکی ہوں گی، اللہ تعالیٰ انھیں بخش دے گا۔ اسی طرح رات اور دن کے تمام صغیرہ گناہ نماز پنجگانہ سے معاف ہو جاتے ہیں، گویا پانچ نمازیں ان پر ہمیشگی مسلمانوں کے نامہ اعمال کو ہر وقت صاف اور سفید رکھتی ہے حتی کہ انسان نماز کی برکت سے آہستہ آہستہ صغائر سے باز رہتے ہوئے کبیرہ گناہوں کے تصور ہی سے کانپ اٹھتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے صحابہ شمالی نام سے فرمایا: بھلا مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی کے دروازے کے باہر نہر ہو اور وہ اس میں ہر روز پانچ بار نہائے، کیا پھر بھی اس کے جسم پر میل باقی رہے گا ؟ صحابہ خان ہم نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے، اللہ تعالی ان کے سب گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔جو انسان پانچ نمازیں پڑھتا ہے۔
سیدنا انس روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ سلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ (میں نے گناہ کیا اور بطور سزا) میں حد کو پہنچا ہوں، لہذا مجھ پر حد قائم کریں۔ آپ نے اس سے حد کا حال دریافت نہ کیا ( یہ نہ پوچھا کہ کون سا گناہ کیا ہے۔) اتنے میں نماز کا وقت آ گیا۔ اس شخص نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ نے نماز پڑھ لی تو وہ شخص پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول ! تحقیق میں حد کو پہنچا ہوں، لہذا مجھ پر اللہ کا حکم نافذ کیجیے۔
آپ نے فرمایا: ” کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی؟“ اس نے کہا: پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا: ”اللہ نے تیرا گناہ بخش دیا ہے ۔ اللہ کی رحمت اور بخشش کتنی وسیع ہے کہ نماز پڑھنے کے سبب اللہ نے اس کا گناہ، جسے وہ اپنی سمجھ کے مطابق ”حد کو پہنچنا کہہ رہا تھا ، معاف کر دیا۔ معلوم ہوا کہ نماز گناہوں کو مٹانے والی ہے۔اسلیے پانچ نمازیں پڑھو۔
اگر عقیدہ طریقہ نماز اور نیت درست ہو تو نماز پر پیشگی بندے کو گناہوں سے روک دیتی ہے۔ اگر کوئی شخص پانچ نمازیں پڑھنے کے باوجود کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہوتو یقینا مذکورہ تین اوصاف میں سے کسی ایک میں ابھی تک خلل موجود ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔
سید نا ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ سلم نے فرمایا: بندہ جب نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے گناہ اُس کے سر اور کندھوں پر آجاتے ہیں، پھر جب وہ رکوع یا سجدہ کرتا ہے تو یہ گناہ ساقط ، یعنی معاف ہو جاتے ہیں۔
سیدنا عبادہ بن صامت ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ اسلام نے فرمایا : اللہ تعالی نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جس نے ان کے لیے اچھا وضو کیا، انھیں وقت پر ادا کیا، انھیں خشوع کے ساتھ پڑھا اور ان کا رکوع پورا کیا تو اس نمازی کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ وہ اسے بخش دے گا اور جس نے ایسا نہ کیا، اس کے لیے اللہ کا عہد نہیں ہے،
چاہے اسے بخش دے اور چاہے تو اسے عذاب دے ۔ سیدنا عمارہ بن رویبہ شاہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: “جو شخص آفتاب کے طلوع و غروب سے پہلے ( فجر اور عصر کی نماز پڑھے گا، وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہوگا ۔
سیدنا بھی سید نا عثان ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے نماز عشاء با جماعت ادا کی ( تو اس کے لیے اتنا ثواب ہے کہ ) گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز باجماعت پڑھی تو اتنا ثواب پایا کہ گویا اس نے تمام رات نماز پڑھی؟ سید نا جندب قسری دی اللہ روایت کرتے ہیں
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ” جس شخص نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کے ذمے (عہد وامان ) میں ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”تمھارے پاس فرشتے رات اور دن کو باری باری آتے ہیں۔ وہ ( آنے اور جانے والے فرشتے) نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوتے ہیں۔
جو فرشتے رات کو تمھارے پاس رہے وہ آسمان پر جاتے ہیں تو ان کا رب ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ اپنے بندوں کا حال خوب جانتا ہے: ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“ وہ کہتے ہیں: ہم نے انھیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور ہم ان کے پاس اس حال میں گئے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ سیدنا ابوہریرہ ہی ان سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ” منافقوں پر فجر اور عشاء سے زیادہ بھاری کوئی نماز نہیں ۔
نبی کریم کو نماز عصر اس قدر پیاری تھی کہ جب جنگ خندق کے دن کفار کے حملے اور تیر اندازی کے سبب یہ نماز فوت ہوگئی تو آپ کو شدید رنج پہنچا، اس پر نبی اکرم علی ایم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے: ”ہمیں کافروں نے درمیانی نماز ، یعنی نماز عصر سے باز رکھا حتی کہ سورج بھی غروب ہو گیا ، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔
سید نا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا : ” وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟
آپ نے فرمایا: ” ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ آ۔ ۔“
آپ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ۔
اور فرمایا: “آدمی اور شرک کے درمیان نماز ہی حائل ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن جب اللہ تعالی بعض دوزخیوں پر رحمت کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا کہ وہ دوزخ کی آگ سے ایسے لوگوں کو باہر نکال لائیں جو اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ فرشتے انھیں نشانِ سجدہ سے پہچان کر دوزخ سے نکال دیں گے (کیونکہ) سجدے کی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی آگ حرام کر دی وہاں آگ کا کچھ اثر نہ ہوگا۔
نیز آپ نے فرمایا: ” سب سے افضل عمل اول وقت پر نماز پڑھنا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت الہی اسکی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔
نمازی کالباس
لَا يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَائِقَيْهِ شَيْءٌ
ترجمہ:
کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے ننگے ہوں ۔ عمر بن ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو ام سلمہ کے گھر میں ایک ہی کپڑے میں لپٹے ہوئے نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ نے اس کی دونوں طرف اپنےکندھوں پر رکھی ہوئی تھیں۔
صحابہ کرام نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور وہ اپنے تہبندوں کو چھوٹے ہونے کے سبب اپنی گردنوں پر باندھے ہوئے ہوتے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں اس وقت تک تم اپنے سر سجدے سے نہ اٹھانا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے علم نہیں کہ ران قابل ستر چین (شرمگاہ) ہے؟
عبداللہ بن عباس ٹینا نے عبداللہ بن حارث کو دیکھا کہ وہ پیچھے سے بالوں کا جوڑا باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے۔ عبداللہ بن عباس خود اٹھے اور ان کا جوڑا کھول دیا۔ جب ابن حارث نماز سے فارغ ہو گئے تو ابن عباس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے : میرے سرہے تمھیں کیا سروکار تھا۔ ابن عباس نے کہا: میں نے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بے شک اس طرح کے آدمی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشکیں بندگی ہوئی حالت میں نماز ادا کرے ۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ آپ کی نگاہ اس کی دھاریوں پر چلی گئی ، جب فارغ ہوئے تو فرمایا: ” میری یہ چادر انجم کے پاس لے جاؤ اور اس کی سادہ چادر میرے پاس لے آؤ۔ اس (چادر کی دھاریوں ) نے تو ابھی ابھی مجھے نماز میں ( خشوع سے ) غافل کر دیا تھا ۔ کشہ بنانے گھر میں ایک جانب ایک پردہ لٹکا رکھا تھا۔ رسول اللہ نے فرمایا: یہ پردہ ہٹادو۔ اس کی تصویر یں نماز میں مسلسل میرے سامنے آتی رہتی ہیں ۔
یعنی ایسی چیزوں کے سامنے نماز نہ پڑھے.
نمازی اور شہید
سیدنا ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک قبیلے کے دو شخص ایک ساتھ مسلمان ہوئے ان میں سے ایک جہاد فی سبیل اللہ میں شہید ہو گئے اور دوسرے صاحب ایک سال کے بعد فوت ہوئے ۔ سیدنا طلحہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ صاحب جن کا ایک سال بعد انتقال ہوا، اس شہید سے پہلے جنت میں داخل ہو گئے ۔ سیدنا طلحہ کہتے ہیں:
مجھے بڑا تعجب ہوا کہ شہید کا رتبہ تو بہت بلند ہے، اس لیے جنت میں اسے پہلے داخل ہونا چاہیے تھا۔ میں نے صبح کے وقت خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس ( تقدیم و تاخیر ) کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : ” جس شخص کا بعد میں انتقال ہوا ( کیا تم اس کی نیکیاں نہیں دیکھتے، کسی قدر زیادہ ہو گئیں؟) اس نے ایک رمضان کے روزے نہیں رکھے؟ اور سال بھر کی ( فرض نمازوں کی )چھ ہزار یا اتنی رکعتیں زیادہ نہیں پڑھیں ؟(یعنی روزے بھی رکھے اور نماز بھی پڑھی)
یہ دونوں صحابی مہاجرین میں سے تھے اور دونوں نے اکٹھے ہجرت کی تھی۔ جہاد وغیرہ تمام اعمال صالحہ میں یہ دونوں شریک تھے۔ ان میں سے ایک میدان جہاد میں شہید ہو گیا اور دوسرا جہاد کی تیاری میں مصروف و مرابط رہا اور ساتھ ساتھ اعمال صالحہ بھی کرتا رہا۔
حدیث میں آیا ہے کہ مرابطہ کا اجر و عمل جاری رہتا ہے، لہذا یہ اپنے اس بھائی سے بڑھ گیا جو پہلے شہید ہو گیا تھا۔
اولاد کو نماز سکھانے کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرَ وَفَيْنِ سَبِيْنَ الْمَضَاجِعِ:
ترجمہ:
اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب وہ دس برس کے ہوں تو انھیں ترک نماز پر مارو اور ان کے بستر جدا کر دو ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم والدین کو حکم فرما رہے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو سات برسی کی عمر ہی میں نماز کی تعلیم دے کر نماز کا عادی بنانے کی کوشش کریں اور اگر وہ دس برس کے ہو کر نماز نہ پڑھیں تو والدین تادیبی کاروائی کریں ، انھیں سزا دے کر نماز کا پابند بنائیں اور دس برس کی عمر کا زمانہ چونکہ بلوغت کے قریب ہے اس لیے انھیں اکٹھا نہ سونے دیں۔
ترک نماز، کفر کا اعلان ہے:
سیدنا جابر یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ” ایمان اور شرک و کفر کے درمیان فرق، نماز کا چھوڑ دینا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام اور کفر کے درمیان نماز دیوار کی طرح حائل ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ترک نماز مسلمان کو کفر تک پہنچانے والا عمل ہے۔ سیدنا بریدہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : ” ہمارے اور ان (منافقوں ) کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی ، پس اس نے کفر کیا ۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو جو امن حاصل ہے کہ وہ قتل نہیں کیے جاتے اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انھیں مسلمان سمجھا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں اور ان کا نماز پڑھنا ان کے اور مسلمانوں کے درمیان ایک عہد ہے جس کے سبب منافقوں کی جان اور ان کا مال مسلمانوں کی تلوار اور یلغار سے محفوظ ہے اور نماز ترک کی تو اس نے اپنے کفر کا اظہار کر دیا۔ کس قدر جس خوف کا مقام ہے کہ ترک نماز ، کفر کا اعلان ہے۔
عبد الله بن شقیق رحمتہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام اعمال میں سے کسی چیز کے
ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے ۔ “
سیدنا ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: ” جو شخص نماز چھوڑ دے تو یقینا اس سے اللہ کی حفاظت کا ذمہ ختم ہو گیا ۔