عید الاضحی/قربانی والی عید/سنت ابراہیمی35right way
عید الاضحی کو اردو اور دیگر زبانوں میں “قربانی کا تہوار” یا “قربانی عید” بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نام عربی لفظ “قربانی” سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے “قربانی”۔
“قربانی عید” کا نام اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ یہ تہوار اللہ کے حکم کی تعمیل کے طور پر اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کے لیے حضرت ابراہیم کی رضامندی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس کہانی کو قربانی کی اہمیت اور اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
عید الاضحی کے دوران، بہت سے مسلمان اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے ابراہیم کی رضامندی کی یاد میں ایک جانور (عام طور پر ایک بھیڑ یا بکری) کی قربانی دیتے ہیں۔ قربانی کے جانور کا گوشت پھر غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جسے اللہ کی نعمتیں بانٹنے اور سخاوت اور خیرات کو فروغ دینے کا ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
لہذا، “قربانی عید” عید الاضحی کے لیے ایک موزوں نام ہے، کیونکہ یہ قربانی اور اللہ کی مرضی کی اطاعت کے مرکزی موضوع کی عکاسی کرتی ہے جو تہوار کے مرکز میں ہے۔
عید الاضحی سنت ابراہیمی کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ مسلمان عیدالاضحی دس ذو الحجہ کومناتے ہیں۔ اس روز عید کی نماز کے بعد مسلمان اللہ تعالی کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں اور گوشت رشتہ داروں، پڑوسیوں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
حضرت اسماعیل و حضرت ابراہیم ﷺ کے فرماں بردار بیٹے تھے
۔ ایک روز حضرت ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں ۔ یہ خواب انھوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو سنایا تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے ۔ مگر اللہ تعالی نے قربانی کے وقت جنت سے مینڈھا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور تفریح کے مواقع بھی ہیں۔
عيد الاضحی اور قربانی کے احکام:
قرآن مجید پارہ نمبر 30 سوره کوثر ، آیت نمبر 2 میں ارشاد باری تعالی ہے: ترجمہ: تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۔
در یعنی تم قربانی کے روز اپنے رب کے لئے نماز عید پڑھو اور قربانیوں کے جانوروں کو ذبح کرو۔”
کہا گیا ہے کہ اس آیت میں نماز عید اور قربانی کرنا مراد ہے ۔
مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور ان بتوں کے نام کی قربانی دیتے تھے ۔
اس آیت مبارکہ میں نبی اکرم کی
وساطت سے اُمت کو تو حید خالص کا حکم دیا گیا کہ وہ رب العالمین جل جلالہ کے لئے عبادت کریں اور اُسی کے لئے قربانی دیں ۔ اس آیت میں اخلاص کا حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان کے کسی عمل میں ریاہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ نیت یہ ہو کہ یہ کام محض اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے کیا جا رہا ہے۔ ہر مسلمان، عاقل، بالغ ، آزاد، مقیم، مالک نصاب پر ماہ ذوالج کی دسویں تاریخ کے دن شروع ہونے پر قربانی واجب ہو جاتی ہے۔
قربانی کے لئے یہ حکم ہے کہ جانور موٹا ، تازہ اور بے عیب ہو، لنگڑا، اپاہچ ، کانا اور جس کا کوئی عضو مثلاً کان و غیرہ ایک تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو، کی قربانی جائز نہیں۔ بکرا، بکری ایک سال کا، گائے بیل دو سال، اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ۔
عید کے روز قربانی کرنے تک کچھ نہ کھائے پئے ۔ قربانی کر کے وہی گوشت کھائے ، یہ مستحب ہے ۔ ذبح خود کرے یا کسی دوسرے مومن کو اجازت دے کر اپنے سامنے کرائے ، مگر اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے۔ اگر کوئی کسی اور کی طرف سے قربانی کرے۔
قربانی کے گوشت کے تین حصے کرے، ایک حصہ آپ معہ اہل و عیال کے کھائے ، دوسرا بر ادری، تیسر امساکین و فقراء میں تقسیم کرے۔ گوشت و پوست کی اجرت قصاب میں دینا جائز نہیں ۔ ہاں کھال خود استعمال کر سکتا ہے،
اس میں لازمی شرط یہی ہے کہ قربانی دس، گیارہ بارہ ذوالج تک کی جاسکتی ہے۔
نویں تاریخ کی صبح کی نماز کے بعد سے ہر نماز کے بعد تکبیرات
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الله الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر والہ الحمد تیرہ تاریخ کی عصر کی نماز تک پانچ دن پڑھتے رہنا چاہیے ۔ دسویں تاریخ کو چاشت کے وقت نماز کے لئے عید گاہ جائیں اور جاتے آتے ہوئے با آواز بلند یہی تکبیر پڑھتے رہیں ۔ جس راستہ سے جائیں واپسی اس کے سوا دوسرے راستہ سے آنا بہتر ہے۔
حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے صحابہ نے عرض کیا:
یا رسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا :
تمہارے باپ حضرت ابراہیم کی سنت ۔
قربانی سے کیا سبق حاصل کریں؟جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان و مال و وقت کی قربانی دیں۔
قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کر دے۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزاری ، جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ، مال ، ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کر دیا، ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش سے عمل کریں۔
32سورۃ ابراہیم/surah ibraheem right way
حج کیسے ادا کریں/حج کس پہ فرض ہے/یومِ عرفہ کیا ہے33 right way