طلاق اور عدت کے بارے میں احکام2 Laws of Divorce and Iddah right now right way

طلاق اور عدت کے بارے میں احکام2 Laws of Divorce and Iddah right now right way

طلاق اور عدت کے بارے میں احکام:

طلاق کا لفظی معنی ترک کرنا یا چھوڑ دینا ہے، اسلامی فقہ میں اس سے مراد 2 گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیوی (منکوحہ) کو قید نکاح سے آزاد کرنے کا اعلان کرنا ہے، عام ازدواجی زندگی کی اصطلاحات میں بھی اس سے مراد میاں بیوی کے نکاح کی تنسیخ ہے۔

طلاق اور عدت کے بارے میں احکام2 Laws of Divorce and Iddah right now right way

میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کو آئندہ زندگی میں توڑنے کا نام طلاق ہے۔ اگر میاں بیوی میں خدانخواستہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں جن سے کسی صورت میں نبھا ممکن نہ رہے تو میاں بیوی کو نکاح توڑنے کا حق ہے۔ اسلام نے طلاق کو اچھا فعل قرار نہیں دیا ہے۔ بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حلال چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ نا پسند ہے۔ (ابوداؤد)

طلاق اور عدت کے بارے میں احکام2 Laws of Divorce and Iddah right now right way

طلاق کے بارے میں ارشاد الہی ہے:
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوْ هُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْسَبِّحُو هُنَّ بِمَعْرُوفِ تُمْرُوفٌ اَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا ایْتِ اللَّهِ هُزُوًا :

ترجمہ: جب تم عورتوں کو دو دفعہ طلاق دے چکو پھر وہ اپنی عدت گزرنے کے قریب پہنچ جاویں تو انہیں یا تو حسن سلوک سے ( رجعت کر کے) نکاح میں رہنے دو یا شائستہ طریقے سے رخصت کرو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دو کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور اللہ کے احکام کو ہنسی ( اور کھیل ) نہ سمجھو۔

Laws of Divorce and Iddah (Waiting Period)

The literal meaning of divorce (Talaq) is to abandon or leave. In Islamic jurisprudence, it refers to the declaration of releasing one’s wife from the marital contract in the presence of two witnesses. In common marital terms, it refers to the dissolution of the marriage.

 

Divorce is the act of breaking the marital relationship. If circumstances arise where the marriage cannot be sustained, the couple has the right to dissolve it. However, Islam does not encourage divorce. The Prophet (PBUH) said, “Of all the permissible things, divorce is the most disliked by Allah.” (Abu Dawood)

وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے۔ اس طلاق کو طلاق رجعی کہتے ہیں۔ پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کر سکتا ہے اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع کر سکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق ورجوع غیر محدود تھا۔

 

جس سے عورتوں پر بڑا ظلم ہوتا تھا۔ آدی بار بار طلاق دے کیا کر رجوع کرتا رہتا تھا اس طرح نہ ہی وہ اپنی بیوی کو بساتا تھا اور نہ آزاد کرتا تھا۔ اللہ تعالی نے اس ظلم کا راستہ بند کر دیا اور پہلی اور دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے بھی محروم نہیں کیا۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ دو طلاق تک رجوع کا اختیار ہے اور رجوع بھی عدت کے اندر اندر ہو سکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں۔

طلاق رجعی کا شان نزول: ایک عورت نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا اور رجعت کرتا رہے گا ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہوگی رجعت کرلے گا پھر طلاق دے دے گا اس طرح عمر ہے بھر اس کو قید رکھے گا اس پر طلاق رجعی کی آیت نازل ہوئی کہ طلاق رجعی دو بار تک ہے اس کے لیے بعد پھر طلاق دینے پر رجعت کا حق نہیں ہے۔

Divine Guidance on Divorce:

Surah At-Talaq (65:2-3): “When you divorce women and they fulfill their term (iddah), either keep them in an acceptable manner or release them with kindness. Do not keep them to harm them, and whoever does so has wronged himself. And do not take the laws of Allah in jest.”

The first two divorces allow for reconciliation during the waiting period (iddah). After the third divorce, reconciliation is no longer possible. During the pre-Islamic period, men could divorce and remarry their wives endlessly, leading to much injustice. Islam restricted this, permitting reconciliation only after the first two divorces.

طلاق کی اقسام کسی عورت کو طلاق دینے کے دو طریقے ہیں:

(۱) طلاق بائن (۲) طلاق رجعی۔
(۱) طلاق بائن: اس طلاق کا طریقہ یہ ہے کہ عورت کو تین طلاق دے کر فارغ کر دیا جائے ۔ اس طلاق کے بعد میاں بیوی کا کوئی تعلق نہ رہے گا۔ بلکہ طلاق پر تعلق فوری ختم ہو جائے گا یہ طریقہ اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔

(۲) طلاق رجعی : اس کا طریقہ یہ ہے کہ عورت حیض کی حالت میں نہ ہو ہے ظلم کہا جاتاہے۔ اسے ایک طلاق دی جائے ۔ اگر عورت حیض کی حالت ہو تو اس کے پاک ہونے تک انتظار کیا جائے ۔ پھر دوسری طہر میں ایک اور طلاق دے دی جائے اس صورت میں مرد کو یہ حق حاصل میں ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے جب چاہے رجوع کرلے لیکن تیسرے طہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد مرد کور جوع کا حق نہ رہے گا اور طلاق مکمل طور پر ہو جائے گی ایسی طلاق کو طلاق رجعی کہا جاتا ہے۔

ارشاد الہی ہے:

وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِالْفُسِهِنَّ لَلَقَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَل اللَّهُ فِي أَمْنَ مَا خَل اللَّهُ فِي أَمْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ :
(سورۃ بقرہ: آیت ۱۲۸)
ترجمہ:
”اور طلاق والی عورتیں آپ کو تین حیض تک (سے) روئے رکھیں۔ اور ان کے لیے نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے (خواہ حمل یا حیض) اس کو پوشیدہ رکھ کر اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں۔

 

اس سے وہ مطلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو ( کیوں کہ حمل والی صورت کی عدت کو وضع حمل ہے ) وہ عورت جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو وہ بھی نہ ہو ( کیوں کہ ایسی صورت کی کوئی عدت نہیں ہے) آنے بھی نہ ہو ( یعنی ایسی عورت جس کو حیض آنا بند ہو گیا کیونکہ اس کی عدت تین ماہ ہے ) گویا یہاں مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف آزاد مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جاری ہے۔

وہ تین حیض ہے۔ تین حیض یا تین طہر عدت گزار کردہ دوسری جگہ شادی کرنے کی مجاز ہے۔ مطلقہ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے حائضہ یا حاملہ ہونے کی حالت ظاہر کر دے تاکہ اس کے موافق عدت کا حساب ہو۔ عورت کو اپنا حمل نہیں چھپانا چاہیے کیونکہ اس طرح دوسری جگہ شادی کرنے کی صورت میں نسب میں اختلاط ہو جائے گا۔ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا ۔ اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہو جائے گا۔ یہ سخت گناہ کبیرہ ہے۔

 

(سورۃ بقرہ: آیت ۲۳۰)
ترجمہ:
” پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے اس پہلے شوہر ) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی دی ہیں ان کو اللہ تعالی ان لوگوں کے لیے بیان فرماتا ہے ہے دانش ر0کھتے ہیں۔

اس آیت میں طلاق سے مراد تیسری طلاق ہےیعنی تیسری طلاق کے بعد ان خراب نہے رجوع کر سکتا ہے اور نہ نکاح البتہ یہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے۔ رجوع اسے طلاق دے دے یا فوت ہو جائے تو اس کے بعد پہلے خاوند سے اس کا ن  کاح جائز ہوگا۔

(سورۃ بقرہ: آیت ۲۳۴)
ترجمہ:
اور جو لوگ تم میں سے فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح کرلیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔

 

یہ عدت خاوند کی وفات پر ہر عورت کیلئے ہے چاہے وہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ ہو ۔ جوان ہو یا بوڑھی ہو البتہ اس سے حاملہ عورت مستثنیٰ ہے۔ کیوں کہ اس کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ سورۃ طلاق میں ہے حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔ اس عدت وفات میں عورت کو زیب و زینت کرنے ، خوشبو لگانے، مہندی لگانے ، سرمہ لگانے کی اجازت نہیں ہے اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور صریح گفتگوئے نکاح ثانی بھی درست نہیں۔

حنفی مسلک کے مطابق تین طلاق بیک وقت دینے سے تین طلاق ہو جائے گی اور تین طلاق دینے کی صورت میں دوبارہ صلح یا نکاح نہیں ہو سکتا جبکہ اہل حدیث مسلک کے مطابق تین طلاق بیک وقت دینے سے ایک ہی طلاق تصور ہوگی ۔ اس لیے اہل سنت حنفی مسلک کے لوگوں کو طلاق دیتے وقت بڑی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور زبان سے کہتے وقت یا اسلام لکھواتے وقت صرف ایک یا دو مرتبہ ہی طلاق کا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ مصالحت کی گنجائش باقی رہ سکے۔

مثال کے طور پر خفی مسلک کے علماء کے مطابق اگر اسلم نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دیں تو اب اسلم کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا اختیار ہے یعنی زبان سے یہ کہے کہ وہ رجوع کرتا ہوں یا فعل سے رجوع کرے اس صورت میں نکاح ثانی کی ضرورت نہیں ہے

۔ اگر عدت گزرگئی تو اب عورت کی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے لیکن تین طلاق دے دی گئی تو پھر شوہر کو نہ
رجوع کرنے کی اجازت ہے اور نہ بغیر حلالہ کے نکاح ہو سکتا ہے۔ اب ہمیشہ کیلئے جدائی ہو گئی اس لیے سوچ سمجھ کر طلاق دینی چاہیے ۔ طلاق غصہ میں دی جائے یا خوشی سے ہر صورت میں طلاق ہو جاتی ہے۔

حق مہر کی ادائیگی کا حکم:
نکاح کے وقت جو مہر مقرر ہوجائے وہ بیوی کا حق ہوتاہے، اور شوہر پر اس کا ادا کرنا واجب ہو تاہے ، چنانچہ مہر مؤکدہونے کے بعداگر بیوی نے معاف نہ کیا ہو توطلاق دینے سے ساقط نہیں ہوتالہذا شوہرپرپورا مہرادا کرنالازم ہوتاہے۔

 

Types of Divorce:

1. Talaq Raj’i (Revocable Divorce): This occurs when a man divorces his wife once or twice. He has the right to reconcile with her during the waiting period (iddah), but after the third divorce, reconciliation is not allowed.

2. Talaq Ba’in (Irrevocable Divorce): This is a final divorce where the marriage relationship ends immediately, and reconciliation is not possible.

 

Divorce in Various Scenarios:

Pregnant Women: A pregnant woman’s iddah lasts until she delivers her child.

Widows: A widow’s iddah lasts four months and ten days, during which she cannot remarry or adorn herself.

Iddah after Divorce: For women who are not pregnant or in their menstrual period, their iddah is three menstrual cycles (three “tuhr” periods). After completing the iddah, they can remarry.

 

Iddah after Husband’s Death: A widow’s iddah lasts four months and ten days. During this time, she must avoid beautification or moving to another home unless absolutely necessary.

 

Divorce in Different Islamic Schools:

Hanafi School: Three divorces at once count as three separate divorces, and the couple cannot remarry without a new marriage contract.

Ahl al-Hadith: They believe that three divorces at once count as one, and reconciliation may still be possible.

Mahr (Dowry) Payment: The mahr (dowry) is a woman’s right, and the husband must pay it in full if the divorce occurs. The wife cannot waive the mahr unless

 

she willingly forgives it.

خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کیا ہے؟
خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت کے بارے میں مجلس افتاء کی سفارشات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس مسئلہ کے فقہی پہلو کی بابت فرمایا۔

https://mashaimnoor.com/salat-al-tasbeeh-%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%b4%d8%b1%d8%a7%d9%82right-now-right-way1/

جہاں تک اس معاملہ کا فقہی پہلو ہے تو میرے نزدیک بھی طلاق اور خلع کی عدت مختلف ہے۔ اس بارے میں مجلس افتاء کی رپورٹ میں بیان دلائل کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جس طرح طلاق اور خلع کی تفصیلات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے احکامات میں بھی فرق ہے۔ طلاق کا حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے اور جب مرد اپنا یہ حق استعمال کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی طلاق کی عدت کا عرصہ شروع ہو جاتا ہے،

جبکہ خلع عورت کا حق ہے جو وہ قضا کی معرفت استعمال کرتی ہے اور جب تک قضا کا فیصلہ نہ ہو جائے اس کی عدت کا عرصہ شروع نہیں ہوتا اور قضا کی کارروائی جس میں عورت کی طرف سے درخواست دینا، حکمین کی کارروائی، فریقین کی سماعت اور فیصلہ وغیرہ وہ امور ہیں جن پرعموماً دو تین ماہ لگ جاتے ہیں۔ پس خلع کی عدت کے کم رکھنے میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ خلع کے بعد عورت کو صرف اسی قدر پابند کیا گیا ہے جس سے اس کا حمل سے خالی ہونا ثابت ہو جائے۔

 

Iddah after Khula (Divorce initiated by wife): The iddah for a woman who seeks khula is shorter than for a woman who is divorced by her husband. The iddah begins once the khula is finalized, typically after a couple of months of legal proceedings.

In summary, the laws of divorce and iddah in Islam provide clear guidelines for the protection of both spouses, emphasizing fairness, the preservation of rights, and the prevention of injustice

 

جمادی الاولٰی75 Jamadi al awwal right now right way

 

نماز اشراق72right way right now.

Facebook
Twitter
WhatsApp
Pinterest
LinkedIn