سورة النسا ء
سورة النساہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے اس سورة میں 24 رکوع اور 176آیات 345کلمے اور 1630 ہروف ہیں
نساء نام رکھنے کی وجہ
عورتوں کو عربی میں نساء کہا جاتا ہے اس سورة میں با کثرت وه احکام بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق عورتوں کے ساتھ ہے اسی لیے اس سورة کو سورة النساء کہا جاتا ہے
فضائل
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں سورة بكره سورة اآل عمران سورة النساء سورة ماعدہ سورة الحج اور سورة النورسیکھو کیونکہ ان سورتوں میں فرض علوم بیان کیے گئے ہیں
حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے سورة بكره سورت آل عمران اور سورة النساءپڑھی تو وه اللّه تعلا کی بارگاہ میں حکمت والے لوگوں میں سے لکھا جاۓ گا
حضرت عبداللّه ابنِ عباس ؓفرماتے ہیں کہ جس جس نے سورة النساءپڑھی تو وه جان لے گا کہ وراثت میں کون کس سے محروم ہو گا اور کون کس سے محروم نہیں ہوتا
اگر میاں بیوی میں لڑائی ہو جاےتو سورة النسا ءکو ایک ہفتہ لگاتار روز سات بار پڑھنے سے انشااللہ میاں بیوی میں صلح ہو جاۓ گی
سورة النساء کی تلاوت کرنے سے گناہ سے بچا جا سکتا ہے
سورة النساءکی باقائده تلاوت سے میاں بیوی میں لڑائی نہیں ہوتی
مرکزی مضمون
اس سورة میں یتیم بچوں اور عورتوں کے متعلق حقوق بیان کیے گیے ہیں جیسے کہ یتیم بچوں کے مال کو اپنے مال میں ملا کر کھا جانے کو بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے نا سمجھ یتیم بچوں کو ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے منع کیا گیا اور جب وه شادی کے قابل اور سمجھ دار ہو جائیں تو ان کا مال ان کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا ہے
یتیمو ں کا مال ناحق کھا جانے پر بڑی وعید بیان کی گئی اسی طرح عورتوں کے پورے حقوق اور مہر اُن کو دینے کا حکم بیان کیا گیا اور مہر کے متعلق چند اور مسائل بیان کیے گئے ہیں
میراث کےمال میں عورتو ں کے حصے مقرر کیے گئے ان عورتوں کا ذکر کیا گیا جن سے نصب رضاعت اور مُثاحرت کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے
جن عورتوں سے کسی سبت کی وجہ کے سبب عارضی طور پر نکاح حرام ہے
سورة النساء کی سورت آل عمران سے کئی طرح سے مناسبت ہے جیسے سورة آل عمران میں مسلمانوں کو تقویٰ اور پرہیز گاری کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح سورة النساءکے شروع میں ان سب باتوں کا حکم دیا ہے
سورة آل عمران میں غزوا اُحد کے بارے میں تفسیل بیان کی گئی ہے اور سورة النساء میں بھی غزوااُحد کا ذکر ہے
دونوں سورتوں میں عسائیوں اور یہودیوں کا حضرت عیسٰیؓ کے بارے میں باطل نظریات کو رد کیا گیا ہے
مضامین
سورة النساءمیں والدین یتیموں مسکینوں رشتےداروں قریبی اور دور کے پڑوسیوں مسافر اور لونڈی غلاموں کےساتھ حسنِ سلوک اور بھلائی کا حکم دیا گیا ہے
اس سورة میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کے احکام بیان کیے گیے ہیں اور نافرمان عورتوں کی اصلا ح کا طریقہ ذکربیان کیا گیا ہے
منافقوں عسائیوں اور بطورِ خاص یہودیوں کے خطرات سے مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے
مال اور خون میں مسلمانوں کے اجتماعی معملات کے احکام بیان کیے گئے ہیں
قاتِل کے بارے میں احکام ہجرت کے بارے میں احکام بیان کیے گئے ہیں
جہاد کے بارے میں احکامات بیان کیے گئے
کن لوگوں کی توبہ مقبول ہے اور کن لوگوں کی توبہ مقبول نہیں کی جاۓ گی
سورة النساءمیں میراث کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں
كبیرہ گناہوں سے بچنے کی فضیلت بیان کی گئی حسد سے بچنے کا حکم دیا گیا نیز تکبُر بُخل اور ریاکاری کی مزمت بھی بیان کی گئی
نیک اعمال کرنے اور گناہ سے توبہ کرنے کی تلقین کی گئی ہے
شوہر بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق اور ازدواجی زندگی کے رہنماءاصول بیان کیے گئے ہیں
سورۃ النساء میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
**اور ان عورتوں کے ساتھ دستور کے مطابق گزران کرو یعنی تمہیں اپنی بیویوں کے ساتھ حسن و سلوک سے زندگی گزر کرنی چاہیے**
ایک اور جگہ فرمایا
** اور اگر کسی وجہ سے تم اپنی بیویوں کو ناپسند کرتے ہو تو کیا پتہ کہ تم اس چیز کو ناپسند کرو مگر اللہ تعالی نے تمہارے لیے اس میں بے شمار خیر و برکت رکھی ہو **
سورۃ النساء میں فرمایا گیا **کہ تو ان کو ان کے مقرر کیے ہوئے مہر دے دیں **
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی جس نے زر مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ وہ ادا نہ کرے گا تو وہ زانی ہے
سورۃ النساء میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد بیویوں کی شکل میں ان میں عدل و مساوات ضروری ہے دوسرا نکاح عدل کی شرط سے مشروط ہے
ارشاد ہے
* پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ عدل نہیں کر سکو گے تو ایک پر اکتفا کرو *
جو ازواج میں انصاف و مساوات نہیں کرتا کہ جب کسی کی دو بیویاں ہوں اور ان سے ان کے حقوق میں عدل و مسوات نہ رکھا تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ادھا جسم گر گیا ہوگا
متعدد بیویوں کی صورت میں ایک طرف زیادہ رغبت اور دوسری کو بالکل معلق چھوڑ دینا قرآن پاک میں سورۃ النساء کی آیت 129 میں ارشاد باری تعالی ہے
** پس نہ جھک پڑو (ایک ہی طرف )کہ ایک کو (آدھ میں) لٹکتی ہوئی ڈال رکھو
اس سورة کے آخر میں حضرت عیسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں عیسائیوں کی گمراہی کا ذکر ہے