ربیع الاول72right way right now

 

ربیع الاول72right way right now

 

ربيع الاول عظمتوں اور برکتوں کا مہینہ:
ربیع الاول ایک اسلامی ماہ ہے جو ہجری کیلنڈر کا تیسرا ماہ ہے۔ یہ محمد کی پیدائش کا ماہ ہے اور اسکو رحمت کا ماہ بھی کہتے ہیں۔ یہ بہت برکت بھرا ماہ ہے۔
لوگ اس ماہ میں عبادت اور ذکر کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اپنے عمل کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ربیع الاول بہت برکت بھرا ماہ ہے اور لوگ اس ماہ میں برکت کی امید کرتے ہیں۔

اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ جب ابتداء میں اس کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع کی ابتدا تھی ۔ یہ مہینہ خیرات و برکات اور سعادتوں کا منبع ہے۔ کیونکہ اس مہینہ کی بارہویں تاریخ کو اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے رحمتہ اللعالمین، احمد مجتبی محمد مصطفے کو پیدا فرما کر اپنی نعمتوں کی بارش برسائی ساسی ماہ کو سید دو عالم مدینہ منورہ تشریف لائے اور اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو محبوب کبریا نے ام المومنین سیدہ خدیجتہ الکبری سے نکاح فرمایا تھا ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
و ما ارسلنک الا رحمتہ العلمین ۔

ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو یعنی ولادت پاک کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ، مساکین کو کھانا کھلانا اور میلاد تشریف کا جلوس نکالنا اور جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بڑا ثواب ہے ۔ جو یہ عمل کرے گا اللہ تعالی تمام سال اس کو امن و امان رحمت فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس مہینہ مبارک میں بارہویں تاریخ کو بالخصوص اور باقی سال بالعموم میلا دشریف کی مجالس منعقد کیا کریں ۔ یہ محفل پاک ذریعہ ہدایت اور حصول برکات ہوگی۔

ربیع الاول72right way right now

ربیع الاول شریف کے نوافل :
یہ مہینہ مبارک چونکہ سید الانبیاء والمرسلین کی ولادت با سعادت کا ہے۔ اس لئے پہلی تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ تک ہر روز دو رکعت نفل پڑھے جائیں ۔ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد اکیس دفعہ قل ھو اللہ احد پڑھے ۔ پھر اس کا ثواب حضور سر پا نور شافع یوم النشور کی روح پر فتوح کو ہدیہ کرے۔

کیونکہ صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ان رکعتوں کا ثواب روح اقدس نبوی کو ہدیہ بھیجا کرتے تھے ۔ اگر روزمرہ بارہ دن اس نماز کے پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو کم از کم دوسری تاریخ اور بارہویں تاریخ کو ضرور پڑہیں رکعت باترکیب مذکورہ پڑھ کر روح پر فتوح حبیب خدا کو بطور ہدیہ پہنچائے۔

حضور اقدس نے اس نماز کے پڑھنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے ۔
ربیع الاول مبارک میں کثرت درود پاک ربیع الاول کے مبارک مہینہ میں درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہیے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی اس ماہ کی تمام تاریخوں میں یہ درود پاک ۔ “اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید “ایک ہزار ایک سو پچیس مرتبہ نماز عشاء کے بعد پڑھےگا تو اس کو خواب میں امام الانبیاءوالمرسلین کی زیارت ہو گی

اگر کوئی بندہ مومن ماہ ربیع الاول میں اس درود شریف “الصلوة والسلام علیک یا رسول اللہ” کو سوالاکھ مرتبہ پڑھے تو وہ یقیناً حضور پر نور شافع یوم النشور کی زیارت سے مشرف ہوگا ۔

کتاب الاوراد میں لکھا ہے کہ جب ربیع الاول شریف کا مبارک چاند نظر آئے تو اس رات کو سولہ رکعت نفل پڑھے جائیں۔ دو دو رکعت کر کے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قتل ھو اللہ احد تین تین مرتبہ پڑھے جب سولہ رکعت پڑھ لے تو یہ درود شریف ایک ہزار مرتبہ پڑھے۔ اللھم صلی علی محمد النبی الامی رحمتہ اللہ و برکاتہ اور بارہ روز تک یہ پڑھتار ہے تو سید المرسلین محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبی محمد مصطفے کی زیارت خواب میں ہو گی

۔ مگر عشاء کی نماز کے بعد اس کو پڑھا کرے اور پھر با وضو سو یا کرے۔
ربیع الاول کا خاص عمل اور سات سو سال کی عبادت کا ثواب :
بعض بزرگان دین سے منقول ہے کہ جو شخص ربیع الاول کی پہلی شب اور پہلے دن دو رکعت نفل نماز رات کے وقت اور دو رکعت نفل نماز دن کے وقت اس طرح سے ادا کرے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سات مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے تو پروردگار عالم اس شخص کو سات سو برس کی عبادت کا اجر عطا فرمائیں گے ۔ ( انشاء الله )

ربیع الاول72right way right now

ربیع الاول کے مہینہ کی فضیلت: صاف طور پر تو قرآن وحدیث میں نہیں ۔ لیکن اُصولی طور پر یہ بات مسلم ہے کہ اس مہینے میں تاجدار مصطفی، احمد مجتبی ، خاتم النبيين ، ورحمة للعالمین حضرت محمد ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی ، اس لیے ربیع الاول کا مہینہ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے برکت اور فضیلت والا مہینہ ہے۔

نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی تھی۔ کچھ علماء کے مطابق نبی کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی، جب کے کچھ کے مطابق نو ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ لیکن ام امت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش بارہ ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ اس لیے آج بھی یہ دن عید میلاد النبی کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس پر اتفاق ہے کہ ولادت با سعادت ماہ ربیع الاول میں دو شنبہ کے دن ہوئی لیکن تاریخ کی تعیین میں چار اقوال مشہور ہیں دوسری آٹھویں دسویں بارہویں حافظ مغلطائی نے دوسری تاریخ کو اختیار فرما کر دوسرے اقوال کو مرجوح قرار دیا ہے

مگر مشہور قول بارہویں تاریخ کو ہے یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا اور اس کو کامل ابن اثیر میں تیار کیا گیا ہے اور محمود پاشا مکی مصری نے جو نویں تاریخ کو بذریعہ حسابات اختیار کیا ہے یہ جمہور کے خلاف بےسند قول ہے اور حسابات پر بوجہ اختلاف مطالع اعتماد نہیں ہو سکتا کہ جمہوری مخالفت اس کی بناء پر کی جائے۔

ولادت سے پہلے آپ ﷺ کی برکات کا ظہور:
جس طرح آفتاب سے پہلے صبح صادق کی عالمگیر روشنی اور پھر شفق سرخ دنیا کو طلوع آفتاب کی بشارت دیتے ہیں اسی طرح جب آفتاب نبوت کا طلوع قریب ہوا تو اطراف عالم میں بہت سے ایسے واقعات ظاہر کیے گئے جو آپ کی تشریف آوری کی خبر دیتے تھے جن کو محدثین و مؤرخین کی اصطلاح میں ارہاصات کہا جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ جب آپ ان کے بطن میں بصورت حمل مستقر ہوئے تو انہیں خواب میں بشارت دی گئی کہ وہ بچہ جو تمہارے حمل میں ہے اس امت کا سردار ہے۔

جب وہ پیدا ہوں تو تم یوں دعا کرنا۔ میں ان کو ایک خدا کی پناہ میں دیتی ہوں۔ ان کا نام محمد رکھنا۔ سیرت ابن ہشام فرماتی ہیں کہ آپ کے حمل رہنے کے بعد میں نے ایک نور دیکھا جس سے شہر بھری علاقہ شام کے محلات ان کے سامنے آگئے ابن ہشام فرماتی ہیں کہ میں نے کسی عورت کا کوئی حمل نہیں دیکھا آپ سے زیادہ سہل اور سبک ہو یعنی ایام عمل میں جومتلی یاسستی وغیرہ عموماً عورتوں کو رہتی ہیں وہ کچھ مجھے پیش نہیں آئیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات رونما ہوے۔

 

آنحضرت ﷺ کی ولادت با سعادت:
اس بات پر جمہور کا اتفاق ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت با سعادت ماہ ربیع الاول میں اس سال ہوئی جس میں اصحاب فیل نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور خداوند عالم نے ان کو ابابیل یعنی چند حقیر جانوروں کی ٹکڑیوں کے ذریعہ شکست دی جس کا اجمالی واقعہ قرآن عزیز میں بھی موجود ہے

اور در حقیقت واقعہ فیل بھی آنحضرت ﷺ کی ولادت با سعادت کی برکات کا مقدمہ تھا۔ ولادت وہ مکان ہے جو بعد میں حجاج کے بھائی محمد بن یوسف کے ہاتھ آیا تھا بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ واقعہ فیل ۲۰ اپریل ۵۷۱ء میں ہوا ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد ﷺ کی پیدائش حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو اکہتر سال بعد میں ہوئی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی۔

انکے والد کا نام عبداللہ ابن عبدالمطلب اور انکی والدہ کا نام آمنہ بنت وہاب تھی. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے انکے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ انکی پرورش انکے دادا عبدالمطلب نے کی تھی. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کیا لیکن انہوں نے کبھی بھی ہار نہیں مانی اور اللہ کے راستے پر چلتے رہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار دو سو برس کا فاصلہ ہوا۔

اور حضرت نوح علیہ السلام سے ابراہیم علیہ السلام تک ایک ہزار ایک سو بیالیس سال کا اور ابراہیم علیہ السلام سے موسیٰ علیہ السلام تک پانچ سو پینسٹھ برس کا اور موسیٰ علیہ السلام سے داؤد علیہ السلام تک پانچ سو بہتر اور داؤد علیہ السلام سے عیسی علیہ السلام تک ایک ہزار تین سو چھپن اور عیسی علیہ السلام اور خاتم الانبیاء ﷺ کے درمیان چھ سو برس کا فاصلہ گزرا ہے۔

اس حساب سے ہمارے رسول مقبول ﷺ تک پانچ ہزار بیس سال ہوئے اور حضرت آدم علیہ السلام کی عمر مشہور قول کے مطابق چالیس کم ایک ہزار سال ہوئی ہے اس لیے آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے تقریبا چھ ہزار سال بعد یعنی ساتویں ہزار سال میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم رونق افروز ہوے۔

بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے عظمت والا رسول بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔

اے اہل کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے یہ رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں واضح طور پر ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور تمہاری بہت سی باتوں سے درگزر بھی فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور یعنی حضرت محمد ﷺ آگیا ہے اور ایک روشن کتاب یعنی قرآن مجید نازل ہوئ
فرما دیجیے:۔

یہ سب کچھ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے جو بعثت محمدی کے ذریعے تم پر ہوا ہے پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس سارے مال و دولت سے کہیں بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں اور وہ وقت بھی یاد کیجیے جب عیسی بن مریم نے کہا:

اے بنی اسرائیل! بے شک میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول معظم ﷺ کی آمد کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام آسمانوں میں اس وقت احمدﷺ ہے، پھر جب وہ رسول آخر الزمان واضح نشانیاں لے کر اُن کے پاس تشریف لے آئے تو وہ کہنے لگے یہ تو کھلا جادو ہے۔

ربیع الاول72right way right now

عید میلاد النبی ﷺ:
میلاد النبی یعنی نبی کی پیدائش کی خوشی میں میلاد منانا ایک ایسی روایت ہے جو بہت سے مسلمانوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن کچھ علماء کے مطابق یہ ایک بدعت ہے اور اسکا کوئی اثر نہیں ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نبی کی پیدائش ایک بہت بڑی تاریخ ہے اور اسکا خوشی میں منانا ایک بہت اچھا عمل ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ میلاد مناتے وقت کچھ باتوں کا خیال رکھا جائے۔

کوئی بھی عمل اللہ کے ذکر اور عبادت سے بغیر نہیں ہو۔ کوئی بھی عمل شرک اور بدعت سے نہیں ہونا چاہیے۔ میلاد میں کچھ بھی نیا عمل نہیں ہونا چاہئیے جو نبی نے نہیں کیا ہو۔میلاد میں نبی کی سیرت اور زندگی کا درس دیا جائے۔
اگر آپ میلاد مناتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ یہ باتوں کا خیال رکھے اور صرف اللہ کے ذکر اور عبادت پر دھیان دیں۔ اور اگر آپ میلاد نہیں مانتے ہیں تو بھی کوئی بات نہیں، کیونکہ یہ ایک روایت ہے اور ہر کسی کو منانا ضروری نہیں ہے۔

عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت:
ماہ ربیع الاول میں عموماً اور بارہ ربیع الاول کو خصوصاً ، آقائے دو جہاں ﷺ کی ولادت با سعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میں محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں اور میلاد النبی من کی خوشی منائی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا میلاد منانا جائز و مستحب اور محبت رسول ﷺ کی علامت ہے اور اس کی اصل قرآن وسنت سے ثابت ہے۔
ذکر میلاد مصطفی علیه حکم قرآنی بھی ہے اور سنت الہی بھی:

ارشاد باری تعالی ہوا!
وَذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللهِ “اور انہیں اللہ کے دن یا دولاؤ ۔ ( ابراهیم : ۵) امام المفسرین سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں رب تعالیٰ کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو: ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم ﷺ کی ولادت و معراج کے دن ہیں، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل
ہے۔

بلا شبہ اللہ تعالی کی سب سے عظیم نعمت نبی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ ہے۔ ارشاد ہوا:
بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا (آل عمران : ۱۶۴)
آقا و مولی ہے تو وہ عظیم نعمت ہیں کہ جن کے ملنے پر رب تعالیٰ نے خوشیاں منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ ارشاد ہوا:

(اے حبیب!) تم فرماؤ، اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے نزول کے سبب انہیں چاہیے کہ خوشی منائیں، وہ خوشی منانا ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ (سورہ یونس : ۵۸)
اللہ تعالی کے فضل و رحمت سے مراد حضور ﷺ ہیں ، سورۃ الاحزاب آیت ۴۷ میں آپ کو فضل اور سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۷ میں رحمت فرمایا گیا ہے۔ ایک اور مقام پر نعمت کا چرچا کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا:

 

اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔
خلاصہ یہ ہے کہ عید میلادالنبیﷺ منانا لوگوں کو اللہ تعالی کے دن یاد دلاتا بھی ہے، اسکی نعمت عظمت کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت الکبری کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن وحدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلا و مصطفی میں اللہ تعالی کی سنت ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت (۸۱ )۔ رب ذوالجلال نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب ﷺ کی آمد کا ذکر یوں فرمایا۔
ارشاد ہوا:

اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے انکا عہد لیا، جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں اور پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرورضرور اس کی مدد کرنا۔

https://mashaimnoor.com/%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%b4%d8%b1%d8%a7%d9%8272right-way-right-now/

محفل میلا د شریف کی حقیقت :
سب سے پہلے آپ کو جاننا چاہیے کہ میلاد کی حقیقت کیا ہے ۔ میلا د مولود، مولد ، یہ تینوں لفظ متقارب المعنیٰ ہیں ۔ میلاد کی حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں اور ایک عالم دین ان کے سامنے حضور سراپا نور شافع یوم النشور کی ولادت مبارک اور آپ کے معجزات اور آپ کے اخلاق کریمہ صحیح روایت کے ساتھ بیان کرے اور آخر میں بارگاہ رسالت میں درود و سلام با ادب کھڑے ہو کر پیش کریں ۔

اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلا کر فقراء مساکین کو کھلائیں ۔ احباب میں تقسیم کریں پھر دعا مانگ کر اپنے اپنے گھروں میں چلے جائیں ۔ یہ تمام امور جو ذکر کئے گئے ہیں قرآن سنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی ضرورت ہے۔

بارہ ربيع الاول کی فضیلت:
بارہ ربیع الاول کا دن ہماری زندگی میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس دن ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ اور لوگوں کو سیدھا اور سچا راستہ دیکھایا۔

https://mashaimnoor.com/%d9%86%d9%85%d8%a7%d8%b2-%d8%a7%d8%b4%d8%b1%d8%a7%d9%8272right-way-right-now/

بارہ ربيع الاول کے دن کا وظیفہ:
آپ بارہ ربیع الاول کے دن پورے دن میں کسی بھی وقت تنہائی میں بیٹھ جانا ہے۔ اور پہلے گیارہ مرتبہ درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اُس کے بعد گیارہ مرتبہ
(يَا اللَّهُ ، يَا رَحْمَنُ ، يَا غَفُورُ ، يَا رَحِيمُ يَا حَنَّانُ ، يَا مَنَّانُ ، يَا دَيَّانُ، يَا سُبْحَانُ)

ان ناموں کو پڑھنا ہے۔ یاد رہے کہ ان تمام ناموں کو اکٹھا پڑھ کر ایک تصور کرنا ہے۔ اور جب آپ گیارہ مرتبہ اللہ کے یہ تمام نام پڑھ لیں ۔ تو آپ نے آخر میں پھر سے گیارہ مرتبہ درود ابراھیمی پڑھنا ہے۔ پھر اللہ سے خصوصی دعا مانگنی ہے۔

اس وظیفہ کو پڑھنے سے آپ کو بہت سے فائدے ہوں گے۔ اللہ آپ کی ہر دعا کو قبول کرے گا۔ ہر مقصد میں کامیابی ملے گی۔ اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا۔ کہ اللہ آپ کے دشمنوں سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔دشمنوں کے ہر وار سے آپ کو محفوظ رکھے گا۔
وظیفہ کو آپ نے پورے یقین سے کرنا ہے۔ وظیفہ پڑھنے کے دوران آپ نے کسی سے بھی کوئی بات نہیں کرنی ہے۔

بارہ ربیع الاول کا عمل ترقی اور عزت کیلئے
بارہ ربیع الاول والے دن اس نقش کو زعفران اور عرق گلاب سے لکھ کر اپنے پاس رکھے اور مکہ کی جانب کھڑے ہو کر ایک ہزار ایک سو گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور اس نقش پر دم کرے پھر اس نقش کو گلے یا سید ھے بازو میں باندھے انشاء اللہ کچھ ہی دنوں میں ترقی اور عزت کے راستے کھل جائیں گے۔

وظیفہ پڑھنے کا جو طریقہ بتایا ہے۔ آپ نے اُسی طریقے سے وظیفہ پڑھنا ہے۔ وظیفہ خود بھی پڑھیں اور صدقے کی نیت سے دوسروں کو بھی ضرور بتائیں ۔

اس مہینے کی تعظیم و تکریم اور احترام کیا جائے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی ہر ہر عمل میں اتباع کا اہتمام کیا جائے ، عقائد میں بھی عبادات میں بھی ، اخلاق میں بھی ، معاشرت میں بھی اور معاملات میں بھی ،

یعنی اپنے عقائد کی اصلاح کی جائے شرک و بدعات سے بچا جائے ، ہر قسم کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پر ہیز کیا جائے ، نماز وغیرہ کی پابندی کی جائے اور اپنی معاشرت کو اسلامی تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے ، ہر قسم کے رسم و رواج نمود و نمائش ، اور فضول خرچی سے بچا جائے، اور اپنے معاملات اور کاروبار میں حلال وجائز چیزوں کا لحاظ کیا جائے

، ناجائز طریقوں اور حرام آمدنی کے ذرائع کو چھوڑ دیا جائے ، اور اپنے اندر اچھے اخلاق پیدا کئے جائیں مثلا علم صبر شکر، تواضع وغیرہ جیسے اچھے اخلاق اختیار کئے جائیں اور برے اخلاق سے بچا جائے مثلا تکبر، غرور، ریاء، دکھلاوا، بےجا غصہ اور حسد و تباغض اور کینہ وغیرہ سے پرہیز کیا جائے۔ اپنے ظاہر و باطن کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھالا جائے۔
اللہ تعالی ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

ماہِ صفر المظفر 69 right now right way

محرم یوم عاشورہ عاشورہ کی دعا61 right way

Facebook
Twitter
WhatsApp
Pinterest
LinkedIn