/حج کا مطلب/حج اسلام کاکون سا رکن ہے/حج کا ثواب
حج اركانِ اسلام کا ایک اہم ركن ہے حج کے لغوی معنی زیارت کا ارادہ کرنے کے ہیں شریعت کی زبان میں اس سے مراد خانہ کعبہ کی زیارت کرنا ہے حج اسلام کا پانچواں اور آخری ركن ہے
اركانِ اسلام میں حج کی اہمیت کا اندازہ قرآن پاک کی اس آیت سے لگایا جاسکتا ہے ترجمہ
اور اللّه تعالیٰ کا حق ہے لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللّه تعالیٰ پرواہ نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی (سورة آل عمران: 97)
اس آیت مبارکہ سے مراد یہ ہے کہ حج ایک جامع عبادت ہے جو اللّه تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر فرض کی گئی ہے اور اللّه تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ حق بھی ہے حج کے ذریعے بھی اللّه تعالیٰ اپنے بندوں کو فائده پہنچانا چاہتا ہے حج کی ادائیگی کا سب سے بڑا فائده گناہوں کی بخشش ہے حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ترجمہ
جو کوئی اللّه تعالیٰ کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور دورانِ حج وه فسق و فجور سے باز رہتا ہے تو وه گناہوں سے اس طرح پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو (بخاری)
اللّه تعالیٰ نے گناہ گار بندوں کو اس دنیا میں ہی اپنے گناہوں کی بخشش مانگنے اور خود کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لیے حج کا نظام بنا کر اپنے رحیم اور کریم ہونے کی دلیل دی ہے وہیں اس سے فائده نہ اٹھانہ ناشکری اور بدبختی کی علامت ہے
حضور اکرمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے ترجمہ جس صاحبِ استطاعت شخص کو نہ کوئی ظاہر ضرورت حج سے روک رہی ہو نہ کوئی ظالم بادشاہ اس کی راہ میں حائل ہو اور نہ ہی اسے کوئی روکنے والی بیماری لاحق ہو اور وہ پھر بھی حج کیے بغیر مر جائے تو وہ ایک مسلمان کی نہیں بلکہ یہودی یا نصرانی کی موت مرے گا
حج ہر بالغ اور صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض کی گئی ہے
حج ایک مسلمان میں انفرادی اور اجتماعی دونوں قسم کی صفات پیدا کرتی ہے حج سے ایک مسلمان میں تقویٰ کی روح پیدا ہوتی ہے
اللّه تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اس کے دل میں اپنے رب کی بندگی اور اطاعت کرنے کا جذبہ بڑھتا ہے
حج ایک ایسی عبادت ہے جس میں باقی تمام عبادات کی روح شامل ہے حج کے لیے مال خرچ کرنا زکوٰة ادا کرنے سے مشابہت رکھتا ہے
نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز روزے جیسی کیفیت رکھتا ہے اور گھر سے دور جا کر حج کرنا ایک جہاد کرنے جیسے ہے اور سارے کام وقت پر کرنا ہمیں نماز کی ادائیگی کی یاد دلاتا ہے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل جہاد حج مبرور (مقبول) ہے حضور اکرم ﷺ کے اسی ارشادِ گرامی کے پیشِ نظر حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے حج کا سامان تیار رکھو کہ یہ بھی ایک جہاد ہے
جب حج کے لیے مختلف علاقوں سے مختلف مذہب کے لوگ سفر کے لیے نكلتے ہیں اور منزل کے قریب پونچھتے ہی سب اپنی اپنی قوم کا لباس ترک کر کے ایک ہی طرح کا سادہ سا لباس پہن لیتے ہیں جس کو احرام کہتے ہیں پھر ایک عجیب سی فضا پیدا ہو جاتی ہے سب ایک ہی لباس میں اپنے خالق و مالک کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں اور سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ترجمہ
حاضر ہوں اے اللّه میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں یقیناً سب تعریف تیرے ہی لیے ہے نعمت سب تیری ہی ہے ساری بادشاہی تیری ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں
مختلف ملکوں اور مختلف علاقوں مختلف مذہب رنگ اور نسل کے لوگوں کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے سب کا ایک ہی امام ہوتا ہے سب ایک ہی زبان میں عبادت کرتے ہیں سب ایک اللّه اکبر کے اشارے پر اُٹھتے بیٹھتے رکوع و سجود کرتے ہیں سب ایک ہی زبان میں قرآن مجید پڑھتے اور سنتے ہیں اس طرح زبانوں نسلوں قوموں میں فرق ختم ہوتا ہے اور ان کا آپس میں اختلاف مٹتا ہے پھر جب سارے ایک زبان ہو کر “لبیک اللھمہ لبیک ” کے نعرے بلند کرتے ہوئے چلتے ہیں تو اللّه تعالیٰ کو ایک ماننے والوں کی ایک عالمگیر جماعت تشکیل پاتی ہے
حج کے دوران جب تمام قوموں کے لوگ چاہے وه امیر ہوں یا غریب ایک ہی جگہ ٹھہرتے ہیں ایک ہی امام سے خطبہ سنتے ہیں سب کا ایک ہی مرکز کے گرد نماز ادا کرنا ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں اس سے دنیا میں امن قائم قوموں کی دشمنی مٹانے اور لڑائی جھگڑوں کے بجائے پیار اور محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے
حج کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ حج ادا کرنے سے ایک انسان کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا
بے شک حج گناہوں کو اس طرح دھو ڈالتا ہے جیسے پانی کپڑوں سے میل کچیل دھو ڈالتا ہے
مناسک حج 9 ذوالحجہ سے شروع ہو کر 12 ذوالحجہ تک جاری رہتے ہیں