استاتذہ کے حقوق/استاد کا احترام

استاتذہ کے حقوق/استاد کا احترام

 اساتذہ کے حقوق استادہ کا احترا

اساتذہ مستقبل کی نسلوں کے ذہنوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان کے حقوق ایک مثبت اور نتیجہ خیز تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلّم کا منصب عطا فرمایا گیا۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا
’’اِنما بعثت معلما‘‘
(ترجمہ) میں بہ طور معلّم (استاد) مبعوث کیا گیا ہوں۔ سیّدنا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے مشکلات میں ڈالنے والا اور سختی کرنے والا بناکر نہیں، بلکہ معلّم اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا ہے۔‘
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے باپ کا رتبہ رکھتا ہوں کہ آپکو علم وحکمت سکھاتا ہوں استاد باپ کا رتبہ رکھتا ہے ۔

مشہور قول ہے کہ ’’جس نے معالج کی عزت نہ کی، وہ شفا سے محروم رہا اور جس نے استاد کی عزت نہ کی، وہ علم سے محروم رہ گیا۔‘‘

حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ تیرے دنیا میں آنے کا باعث بنا، یعنی والد، دوسرا وہ، جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، یعنی سسر اور تیسرا وہ، جس نے تجھے علم و آگہی سے نوازا، یعنی استاد۔‘‘

امیرالمومنین سیّدنا عمر فاروقؓ سے پوچھا گیا ’’آپ اتنی عظیم الشان اسلامی سلطنت کے خلیفہ ہیں، کیا اس کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟‘‘ فرمایا! ’’کاش! میں ایک معلّم ہوتا۔‘‘ امیرالمومنین سیّدنا علی مرتضیٰؓ کا قول ہے کہ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی بتایا، میں اسے استاد کا درجہ دیتا ہوں

استاد کا احترام

استاد کا پہلا حق یہ ہے کہ اس کے شاگرد اس کا ادب و احترام کریں، اس کے ساتھ عزت، عاجزی و انکساری کے ساتھ پیش آئیں۔ اس کا کہنا مانیں اور جو تعلیم وہ دے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے،
اس کا حق اپنے شاگردوں پر اتنا ہی ہے، جتنا ایک باپ کا اولاد پر۔ ماں باپ اگر اس کے دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، تو استاد اسے اچھی اور باعزت زندگی جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے

ماں کی گود میں پروان چڑھنے والی علم و عمل کی پہلی کونپل، استاد ہی کے ہاتھوں تعلیم و تربیت کے عمل سے گزر کر ایک قدآور اور پھل دار اور سدابہار درخت کا روپ دھارتی ہے۔ استاد اگر اپنے فرائض سے غفلت برتے تو معاشرے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے۔

معاشرہ حیوانیت، نفس پرستی اور مفاد پرستی کی تصویر بن کر جہنم کا نمونہ پیش کرنے لگتا ہے اور پھر ذلت و رسوائی قوم کا مقدر بن جاتی ہے
استاد کی معاشی ضروریات و حاجات میں معاونت اور استاد کی خدمت، سعادت مندی اور عین عبادت ہے۔

ذوقِ علم

 ذوق علم کی تسکین اور حصول کے لیے محنت و مشقّت اٹھا کر دوردراز کا سفر کرکے استاد کے پاس جانا پڑے، تو ضرور جائیں۔ استاد خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، طلبہ کے بہترین حسنِ سلوک کا مستحق ہے۔غرض یہ کہ استاد، علم کا سرچشمہ، معلم و مربّی، علم کے فروغ کا ذریعہ اور اللہ کا بہت بڑا انعام و احسان ہے۔

تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کے لئے جسمانی اور ذہنی سکون کا خیال رکھیں، مثلاً آرام دہ کلاس رومز، معقول تدریسی اوقات، اور تعطیلات کی سہولیات

ایک مثبت اور نتیجہ خیز تعلیمی ماحول پیدا کرنے کے لیے اساتذہ کے حقوق ضروری ہیں۔ ان حقوق کو پہچان کر اور ان کا احترام کرتے ہوئے، ہم اساتذہ کو ان کے اہم کام میں مدد کر سکتے ہیں اور ان کے طلباء کو بہترین تعلیم فراہم کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کے حقوق صرف مراعات نہیں ہیں، بلکہ ان کی کامیابی اور بہبود کے لیے ضروری ضروریات ہیں۔

یہ حقوق اساتذہ کو ان کے پیشے میں استحکام فراہم کرتے ہیں اور انہیں حوصلہ دیتے ہیں کہ وہ بہتر انداز میں طلباء کی تعلیم و تربیت کر سکیں۔ معاشرتی ترقی اور تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے اساتذہ کے حقوق کی پاسداری ضروری ہے

اپنے اساتذہ کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں کہ اللہ کے نزدیک یہ سعادت مندی بڑی پسندیدہ ہے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو اپنے اساتذہ کی عزت، ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جو اساتذہ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں، ان کی علمی خدمات کے عوض انہیں جنت میں بہترین انعام و اکرام سے نوازے۔ (آمین)

Facebook
Twitter
WhatsApp
Pinterest
LinkedIn